• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرسید احمد خان ۔عظیم مفکر، رہنما اور دانشور ...خصوصی تحریر…میر حسین علی امام

سرسید احمد خان ایک عظیم مفکر ، سیاسی رہنما ، ادیب ، دانشور ، ماہر تعلیم ،صحافی،مدبر اور سماجی مصلح قوم تھے۔ آپ نے 1857ء کے بعد مسلمانوں کی رہنمائی کی اور مسلمانوں کو نہ صرف خواب غفلت سے جگایا بلکہ ان میں ہندو سامراج اور انگریز حاکموں سے مقابلہ کرنے کی قوت و توانائی پیدا کی۔ سرسید احمد خان دراصل محسن قوم اور محسن ملت تھے۔ آپ نے جنگ آزادی کے بعد سب سے پہلے جرات مندانہ قدم اٹھایا۔ آپ نے ’’اسباب بغاوت ہند‘‘ تحریر کی اور وہ تمام اسباب، وجوہات کا ذکر کیا جن کی وجہ سے 1857ء کی جنگ ہوئی۔ اس کتاب پر انگریز سر کار نے آپ کی پھانسی کے احکامات صادر کئے بعد میں یہ احکامات واپس لے لئے گئے۔ آپ کی دور رس نگاہوں نے دیکھ لیا کہ مسلمانوں کی ناکامی صرف علوم جدیدہ خصوصاً سائنسی تعلیم سے محرومی ہے اور کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ علوم جدیدہ اور سائنسی علوم کا حصول ممکن ہو۔ آپ نے ایم اے اسکول یعنی محمڈن اورنیٹل اسکول کی 1870 میں بنیاد ڈالی جس کو 1875 میں کالج کا درجہ دیا گیا اور وہ علی گڑھ کالج کے نام سے مشہور ہوا 1875میں اسے علی گڑھ یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوا ۔ قائد اعظم علی گڑھ یونیورسٹی کے طلبا کو مسلمان ہند کا سیاسی اسلحہ خانہ قرار دیتے تھے۔ مسلم لیگ کی تحریک پاکستان میں، علی گڑھ کے طلبا نے ہر اول دستہ کا کام کیا اور مسلم لیگ کا پیغام ہندوستان کے گوشے گوشے میں پہنچایا۔ سرسید احمد خان نے مسلمانوں میں جدید علوم کی ترقی و ترویج کیلئے سائنٹفک سوسائٹی 1864 میں قائم کی۔ بعد میں اس کے کئی ذیلی شاخیں قائم کی گئیں۔ اس کے تحت ادیبوں، مشاہیر، ماہرین تعلیم سے سائنسی علوم اور سماجی علوم پر یورپی زبانوں سے تراجم بھی شائع کئے گئےاور ان علوم پر نئی کتب بھی تحریر کرائی گئیں اس طرح اردو میں شعوری طور پر علم و آگہی، سائنسی و مروجہ علوم کی کتب، مقالات، تعلیمی کانفرنسوں کا سلسلہ جاری ہوا جس کی وجہ سے اردو ادب ، اردو نثر مالا مال ہوئی اور مسلمانان برصغیر میں تعلیمی پسماندگی دور ہوئی۔ 1885میں سرایلن سوم نے آل انڈیا کانگریس قائم کی تاکہ برصغیر کے لوگوں کو سیاسی سہو لتیں دی جائیں اور ان میں سیاسی قیادت پیدا کی جائے۔ سرسید نے مسلمانوں کو کانگریس میں شامل ہونے سے روکا۔ ان کی سیاسی بصیرت نے اندازہ کرلیا تھا کہ کانگریس صرف انگریز سرکار کے وفادار سیاسی قائدین پیدا کرے گی اور مسلمانوں میں کوئی اہم تبدیلی، اس میں شمولیت سے نہ آئے گی ۔ آپ نے کانگریس سے شعوری طور پرمسلمانوں کو دور رکھنے کیلئے یا گندگی سیاست سے محفوظ رکھنے کیلئے اور مسلمانوں میں تعلیم کی ترویج کیلئے آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس 1886 میں قائم کی۔ اس کے ہر ضلع ، صوبے میں شاخیں قائم کیں اور ملک کے طول اور عرض میں مسلمانان برصغیر کیلئے تعلیمی ادارے قائم کرنے شروع کئے۔ تعلیمی اصلاحات ، تعلیمی کانفرنسوں کا سلسلہ جاری کیا۔ اس سے مسلمانوں میں تعلیم کی تحریک پروان چڑھی۔ گائوں، دیہات ہر جگہ معیاری درسگاہیں بننے لگیں۔یہی آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس تھی جس کے 1903کے اجلاس میں ڈھاکہ میں نواب آف ڈھاکہ میر سلیم اللہ خان کی صدارت میں مسلم لیگ مسلمانوں کی سیاسی جماعت کے طور پر ابھر کر آئی۔باقاعدہ جامعہ عثمانیہ کی عمارت قائم کی گئی اور 28 اگست 1919 کو میر عثمان خان نے پہلی اردویونیورسٹی جامعہ عثمانیہ کی تاریخی عمارت کا افتتاح کیا۔ یہ سب سرسید کی دور رس تعلیمی بصیرت کانتیجہ تھا۔ علی گڑھ یونیورسٹی میں 1905میں انجمن ترقی اردو قائم کی گئی۔ جس کو 1923میں مولوی عبدالحق اورنگ آباد، حیدرآباد دکن لے گئے اور اس کو بہت ترقی دی اور یورپی ادب کو اردو میں منتقل کیا۔ انجمن ترقی اردو قیام پاکستان کے بعد کراچی آگئی ۔ سرسید نے مسلمانان برصغیر میں سیاسی روح پھونکی اور دو قومی نظریہ پیش کیا جو دراصل پاکستان کے قیام کا اہم نظریہ محرک ثابت ہوا۔ 1863میں بنارس کے ہندوئوں نےاردو کو فارسی موجودہ تعلیمی رسم الخط میں لکھنے سے اعتراض کیا اور کہا کہ موجودہ فارسی ، عربی رسم الخط مسلمانوں کا رسم الخط ہے۔ اسلئے اردو کو دیوتا گری ہندی رسم الخط میں لکھا جائے جو ہندوستانیوں کا رسم الخط ہے ۔ یہ معاملہ ایک فتنہ و فساد بن گیا۔ اردو ہندی جھگڑا بڑھ گیا۔ ہندو ئوں نے دیوتا گری رسم الخط کو اپنا لیا اور فارسی رسم الخط میں لکھنے سے اختلاف کیا۔ مسلمان ہمیشہ سے اس میں لکھتےآئے تھے۔ سرسید احمد خان نے اس موقع پر دو قومی نظریہ پیش کیا کہ مسلمان اور ہندودو ا لگ قومیں ، تہذیبیں ہندوستان میں رہتی ہیں۔انکے عقائد، رسم و رواج ثقافتی طور طریقے، زبان، سب جدا ہیں۔ ہندوستان میں صرف ہندوئوں کا ملک نہیں ہے بلکہ ہندوستان دو مذہبی اقوام اور ہندو اور مسلمان دونوں کا ملک ہے۔ یہ نظریہ ہندوئوں کیلئے بھی اور سرکار کیلئےبھی انگریز سرکار کیلئے بھی ایک ایٹمی دھماکہ ثابت ہوا،دو قومی نظرئیے پر ہندوئوں نے بڑا واویلا کیا۔ لیکن زمانے نے یہ ثابت کیا کہ ہندوستان میں مسلمان اور ہندوئوں کی ہر چیز مختلف تھی۔ مسلمان آہستہ آہستہ اس نظریہ کو اپناتے گئے۔ مسلمانوں میں اتحاد قائم کرنے میں اس نظریہ نے اساس کا کام کیا۔ علی گڑھ کالج، ایجوکیشنل کانفرنس، مسلم لیگ کے قیام میں یہی نظریہ کار فرما رہا۔ قیام پاکستان اسی بنا پر وجود میں آیا۔ سرسید احمد خان 17اکتوبر 1817کو دہلی میں پیدا ہوئےتھے۔ آج سرسید کا 200 واں یوم پیدائش ہے۔ ہمیںآپ کی تعلیمی، سیاسی ملی خدمات ملی کا اعتراف کرنا چاہئے اور نوجوان نسل کو بتاناچاہئےکہ پاکستان کا قیام دو قومی نظرئیے کی بنا پر ممکن ہوا۔

تازہ ترین