• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی معیشت کے تمام اعشارئیے مثبت ہیں، ترجمان وزارت خزانہ

Todays Print

اسلام آباد (حنیف خالد) وفاقی وزارت خزانہ کے ترجمان نے کہا ہے کہ قومی معیشت کو جون 2013 کے مقابلے میں تنزلی کا شکار قرار دینے والے حقائق کا منہ چڑا رہے ہیں ملکی معیشت2013 کے مقابلے میں بدرجہا بہتر ہے۔ قومی معیشت کے تمام اہم اعشارئیے مثبت ہیں۔ جون 2013 میں جب نئی حکومت آئی اس وقت مجموعی داخلی پیداوار کی شرح نمو 3.68فیصد تھی۔ موجودہ حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد جی ڈی پی گروتھ ریٹس مسلسل اضافہ ہوتا چلاآرہا ہے جو آج 2017میں 5.28فیصد تک پہنچ چکی ہے اور یہ دس سالوں کی بلند ترین جی ڈی پی گروتھ ہے۔

وہ گزشتہ روز جنگ گروپ کے ملکی معیشت کے بارے میں سوالوں کا جواب دے رہے تھے ان سے پوچھا گیا کہ مجموعی داخلی پیداوار کی شرح نمو کم ہونے کی بجائے کن عوامل کی بنیاد پر بڑھی تو انہوں نے جواب دیا کہ موجودہ حکومت کی زرعی و صنعتی پالیسیوں اور47 سال میں کم ترین شرح سود، پالیسی ریٹ اس کی بنیادی وجوہات ہیں۔ اس کے نتیجے میں2013سے 2017 کے دوران ہماری زرعی پیداوار میں 3.5 فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔ گزشتہ تین سالوں سے انڈسٹریل سیکٹر مسلسل پانچ فیصد شرح نمو دکھا رہا ہے سروسز سیکٹر ( خدمات کا شعبہ) کی گروتھ میں مسلسل تین سالوں سے اضافہ ہورہا ہے۔ جب ان سے کہا گیا کہ انڈسٹریل سیکٹر میں بڑی صنعتوں کی پیداوار کا گروتھ ریٹ کیا ہے تو انہوں نے جواب دیا کہ حکومت کی پروگروتھ پالیسیوں کی وجہ سے ہمارا جولائی2017 میں لارج سکیل مینو فیکچرنگ کی شرح نمو12.9 تک چلی گئی ہے جو بارہ سالوں کی بلند ترین شرح نمو ہے۔

ترجمان نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جون 2018 تک پاکستان کا جی ڈی پی گروتھ کا ٹارگٹ 5.28 سے بڑھا کر6 فیصد رکھا گیا ہے۔ لارج اسکیل مینو فیکچرنگ سیکٹر کی جو گروتھ آرہی ہے اور زرعی شعبے کی اہم فصلوں کی پیداوار کے اعشارئیے جو سامنے آرہے ہیں اس چیز کی غماز ہیں کہ ہم رواں مالی سال کیلئے مقرر کئے گئے اہداف پورے کر لیں۔ کیوں کہ ہمارے زرعی قرضے جو2013 میں 336 ارب روپےکے کسانوں کو دیئے گئے تھے وہ مالی سال 2016-17 میں 704 ارب روپے کے کاشتکاروں کو دیئے گئے اور رواں مالی سال میں یہ بڑھ کر ایک ہزار ارب روپے سے بھی زیادہ کر دیئے جارہے ہیں۔ ترجمان نے کہا کہ افراط شرح بڑھنے کی بجائے موجودہ حکومت کی بہتر زرعی مالی پالیسیوں وفاقی و صوبائی حکومتوں کی طرف سے قیمتوں کی بہتر مانیٹرنگ اور اشیا کی وافر رسد کی وجہ سے افراط زر کی شرح 7.4فیصد سے کم ہو کر مالی سال 2017-18 کی پہلی سہ ماہی میں 3.9 فیصد ہوگیا ہے جبکہ میں 2016-17 میں افراط زر کی شرح 4.16 فیصد تھا۔

انہوں نے یہ بھی بتایا کہ 2015-16 مالی سال میں افراط زر کی شرح نمو47 سال کی کم ترین سطح پر آگئی۔ جو کہ 2.86 فیصد تھی جب پوچھا گیا کہ 2013 کے مقابلے میں2017میں ایف بی آر کی ریونیو وصولیوں کی کیا پوزیشن رہی تو ترجمان نے کہا کہ جون 2013 کوختم ہو نے والی مالی سال میں ایف بی آر کے ریونیو کی وصولی 1946 ارب روپے کی تھی جو کہ جون 2017 میں بڑھ کر3361 ارب روپے سے تجاوز کر گئی اسطرح موجودہ حکومت کے چار سالوں میں ریونیو کی وصولی میں 73 فیصد ریکارڈ اضافہ ہو ہے ا گر اس ریونیو وصولی کو جی ڈی پی کے تناسب سے دیکھا جائے تو یہ 9.8 فیصد سے بڑھ کر 12.5فیصد تک پہنچ گئی رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں گروتھ کار رجحان جاری ہے ایف بی آر نے جولائی ستمبر2017میں634.22ارب روپے کے ٹیکس جمع کئے جو کہ جولائی ستمبر2017میں بڑھ کر765.12 ارب روپے جمع کئے گئے ہیں جو ملکی تاریخ کا آل ٹائم ریکارڈ ہے۔

765.12 ارب روپے کی ٹیکس وصولی اس حقیقت کے باوجود ہوئی کہ ایف بی آر نے اسی پہلی سہ ماہی میں 41 ارب روپے کے ٹیکس ریفنڈ ٹیکس گزاروں کو ادا کئے۔ جب سوال کیا گیا کہ پاکستان کا مالی خسارہ (Fiscal Deficit) 2013 میں کیا تھا اور اب کیا ہے تو ترجمان نے بتایا کہ 2013 میں یہ 8.2فیصد تھا جو 2016-17میں کم ہو کر 5.8 فیصد، ترجمان نے ضمنی سوال پر بتایا کہ یہ قرضے پاکستان میں ہی نہیں لئے جارہےہیں دنیا بھر کے چھوٹے بڑے ملک اپنی اقتصادی ترقی کی رفتار تیز کرنے کیلئے قرضے لیتے ہیں آئی ایم ایف کی ایک رپورٹ کے مطابق امریکہ برطانیہ اور جاپان جیسے ترقی یافتہ ملکوں پر قرضوں کا بوجھ ان کی جی ڈی پی کے 80 سو فیصد تک سے حتیٰ کہ ہمارے جیسے ترقی یذیر ملکوں جیسا کہ مصر سری لنکا بھارت کے ذمے قرضے ان کی جی ڈی پی کے 61 فیصد سے بھی کہیں زیادہ ہیں۔

2017 میں مصر کا قرضہ جی ڈی پی کے 93.6 فیصد، سری لنکا پر قرضہ اس کی جی ڈی پی کے 79.5 فیصد بھارت پر قرضوں کا بوجھ اس کی جی ڈی پی کے 67.7 فیصد کے مساوی ہے۔ یہاں یہ بات ضروری ہے کہ پوری دنیا ملکوں پر جو قرضے کا جو بوجھ ہے وہ 2013 سے 2017 تک تقریباً8 فیصد بڑھا جب کہ پاکستان یہ قرضے کا بوجھ تقریباً8فیصد بڑھا جب کہ پاکستان پر قرضے کا بوجھ بڑھنے کی شرح 1.4 فیصد تھی(60.2فیصد2013 سے 61.6 فیصد 2017) یہ آئی ایم ایف کی رپورٹ ہے۔ ترجمان نے برآمدات کے متعلق ضمنی استفسار پر مزید بتایا کہ صرف پاکستان کی ہی برآمدات میں کمی نہیں ہوئی بلکہ عالمی کساد بازاروں کی وجہ سے بھارت انڈونیشیا، سری لنکا وغیرہ کی برآمدات میں بھی خاطر خواہ کمی ہوئی۔ مستحق افراد کا حق مارا ہوا تھا۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام آٹو میشن کے راستے پر عمل پیرا ہے اور مستحقین کو جدید ٹیکنالوجی کے ذریعے اوسطاً4834 روپے فی سہ ماہی ادا کئے جارہے ہیں ۔

2013میں فی سہ ماہی ادائیگی3000 روپے فی خاندان تھی۔ ترجمان نے یہ بھی بتایا کہ موجودہ حکومت نے کسان پیکج، ایکسپورٹ پیکج اور ملک کی پانچویں ایکسپورٹ اور سٹینڈ انڈسٹریز( ٹیکسٹائل سپورٹس، لیدر، سرجیکل گڈز( آلات جراحی) قالین) کو زیروریٹڈ(ایکسپورٹ ڈیوٹی) سے استثنیٰ دیا اس کے باوجود بھی مالی خسارہ بتدریج کم کیا گیا ایک ضمنی سوال پرترجمان نے کہا کہ ہمارا جی ڈی پی کا سائز/ حجم جون 2013 میں 231 ارب ڈالر تھا 2016-17 میں بڑھ کر304-4 ارب ڈالر ہوگیا ہے یہ اضافہ تقریباً32 فیصد بنتا ہے۔ ان سے کہا گیا کہ بعض حلقوں کی طرف سے یہ اعتراض سامنے آرہا ہے کہ ہمارے ڈائریکٹ ٹیکسز کم ہورہے ہیں اور ان ڈائریکٹ ٹیکس زیادہ ہورہے ہیں۔ کیا آپ اس سے اتفاق کرتے ہیں جس پر وزارت خزانہ کے ترجمان نے جواب دیا کہ1990-91 میں ڈائریکٹ ٹیکس ٹوٹل ٹیکسوں کا20 فیصد ہوتے تھے جو کہ 2016-17 میں 40فیصد تک پہنچ گئے ہیں یہ اعتراض برائے اعتراض ہے۔ اسی طرح سالانہ آمدن ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والوں کی تعداد 7لاکھ66 ہزار سے بڑھ کر 2016-17میں بارہ لاکھ 60 ہزار تک پہنچ گئی ہے۔

مزید برآں رواں مالی سال میں ایف بی آر ٹیکس بنیاد میں وسعت (BTB) کا ایک نیا پیکج قوم کو دینے کے لئے تیار کر رہا ہے جس کے نتیجے میں سالانہ آمدن ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والوں کی تعداد رواں مالی سال میں تیزی سے بڑھے گی ۔ یکم جولائی 2017 سے 13 اکتوبر 2017تک ٹیکس گوشوارے جمع کرانے والوں کی تعداد3 لاکھ 52 ہزار ہوگئی ہے، جبکہ 2016-17کی اس مدت3 ماہ 13یوم میں ایک لاکھ 62ہزار افراد نے ٹیکس گوشوارے جمع کرائے تھے اس طرح ٹیکس ریٹرن فائل کرنے والوں کا نمبر تیزی سے بڑھ رہا ہے ٹیکس گوشوارے جمع کرانے کی آخری تاریخ 31اکتوبر 2017ہے۔

تازہ ترین