• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکیوں کو موثر انداز میں پیغام پہنچایا، اثر آنا شروع ہوگیا ،خواجہ آصف

Todays Print

کراچی(جنگ نیوز)جیو نیوز کے پروگرام آپس کی بات میں وزیر قانون پنجاب رانا ثنا اللہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سب کچھ اچھا نہیں ہے اور خاص طور پر سنہ2000کے بعد پاکستان کی سیاست میں جو اضافہ ہوا ہے عمران خان اور پی ٹی آئی کی شکل میں تو ایسی سیاست جس میں رواداری تھی ،عزت تھی ، احترام تھا اس اضافے نے آکر ایسے ختم کردیا ایک تو اس کے پیپلز پارٹی اور پی ایم ایل این کو مک مکا کے نام پر اتنا زچ کیاکہ پیپلز پارٹی نے بھی اب یہ سمجھا ہوا ہے کہ جب تک وہ اس سے بڑھ کر بات نہیں کریں گے تو شاید یہ چیز ان پر وارد ہوجائے گی، انہوں نے شیخ رشید کا حوالہ دیتے ہوئے مزید کہاکہ پنڈی سے ایک صاحب ہیں ، جب سپریم کورٹ میں پیشی ہوتی ہے تو اس کے بعد سپریم کورٹ کے ترجمان ہوتے ہیں اور اس کے متعلق فیصلہ دیتے ہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے بعد اس کی تشریح وہ فرماتے ہیں، تو یہ جو لوگ ہیںان کا بیانیہ ہے تو اس پر ہر جانب سے بات کرنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ جمہوریت جب تک فعال نہیں ہوتی تب تک صحیح نہیں چل پاتی، اور اب جو لوگ خلا پورا کر تے ہیںانہوں نے ہی جمہوریت کواس کا دور پورا کرنے نہیں دیا۔ اس ملک میں جمہویت کو چلنے دیا جانا چاہیے اور اسے ارتقائی مراحل سے گزرنے دیا جانا چاہیے۔رہنما پیپلز پارٹی نیر بخاری کا کہنا تھا کہ جس طریقے سے آج کل اداروں کے درمیان بحث جاری ہے اس میں ٹھہراو کی بہت ضرورت ہے ، یہ لفظوں کی جنگ جو شروع ہوئی ہے یہ ملک کیلئے مناسب نہیں ہے اور جمہوریت کیلئے بھی مناسب نہیں ہے ، اور جب ٹیکنو کریٹ کی بات ہوتی ہے تو میرا ایک سوال ہے کہ ٹیکنو کریٹ حکومت پارلیمنٹ کی موجودگی میں ہوگی یا پارلیمنٹ کے بغیر، اگر پارلیمنٹ کی موجودگی میں ہے تو آئین موجود اور لاگو ہے اور جب آئین لاگو ہو تو ٹیکنوکریٹ یا نیشنل گورنمنٹ کی گنجائش نہیں بنتی، اس میں تو جو پارٹی اسمبلی میں نمائندگی اکثر یت رکھتے ہے نمائندگی وہی کرتی ہے ، البتہ اگر ساری پارٹیاں مل بیٹھیںاور پھر ایک نیشنل گورنمنٹ بنائیں تو وہ الگ بات ہے ، لیکن اگر آپ آئین کی پاسداری کیے بغیر حکومت بناتے ہیں تو پھر وہ جمہوریت نہیں ہوگی وہ کچھ اور ہوگا، میں سمجھتا ہوںہر جانب سے غیر ذمہ دارانہ بیانات دینے اور اگر ادار و ں کے درمیان اختلافات موجود بھی ہیں تو بیٹھ کراس پر بات کی جانی چاہیے، عوام میں آکر ایک دوسرے پر تنقید کرنے سے گریز کرنا چاہیے ۔

انہوں نے مزید کہا کہ سیاسی پارٹیوں کے درمیان ایک دوسرے پر تنقید کرنا ایک عام سے بات ہے اور یہ کوئی غیر مناسب بات نہیں ہے لیکن جس طریقے سے حکومت کے وزراء اور اداروں کی جانب سے بیانات آرہے ہیں وہ ملک کیلئے بہتر صورتحال نہیں ہے انہوں نے مزید کہا کہ حکومت کے اندر اعتماد کا فقدان ہے جس کی وجہ سے نہ عوام اور نہ دوسری سیاسی جماعتیں ان پر اعتبار کرنے کو تیار ہیں۔دفاعی تجزیہ کارامتیاز گل نے کہا کہ اس ملک کے جمہوری ڈھانچے میں ہزار پندرہ سو اشرافیہ کا کلب بنا ہوا ہے اور انہی میں سے لوگ گردش کرکے آتے رہتے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی مراعات کو عوام کی خواہشات قرار دے کراس ملک کی تقدیر کے ساتھ کھلواڑ کر رہے ہیں، حکومت میں بیٹھے لوگ مغربی جمہوری نظام کی طرح حقوق تو مانگتے نظر آتے ہیںمگر ذمہ داریاںاس طرح ادا نہیں کرتے۔ جب حکومت اپنی ذمہ داریاںعوام کے حقوق کیلئے ادا نہیں کریں گے تو ایک خلا پیدا ہوگاپھر اسے دوسراادارہ پُرکرے گا، پھر ہم،ارے سیاستدان شکایت انہی سے کرنے لگتے ہیں حالا نکہ کمی ان کی اپنی کارکردگی میں ہے ۔

انہوں نے کیپٹن (ر) صفدر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ گذشتہ دنوں کپتان نے قومی اسمبلی میںپاکستان کے شہریوں کے حوالے سے جو دھواں دھار قسم کی تقریر کی ، وہ میں سمجھتا ہوں کہ تمام ارکان اسمبلی کے اس حلف نامے کی توہین ہے جس میں وہ کہتے ہیںکہ وہ پاکستان کے آئین کاعوام کے حقوق کا احترام کریں گے ۔اس حوالے انوسیٹی گیٹو جرنلسٹ عمر چیمہ کا کہنا تھا کہ گورننس میں مسائل ضرور موجود ہیں اگر ادھر ایک خلا پیدا ہوتاہے تو اسے کسی نے آ کر پُر کیا ہے ، لیکن ہمارے ساتھ ایک المیہ یہ بھی ہے کہ جنہیں خلا پر کرنا ہوتا ہے انہیں بھی ہم چار دفعہ آزما چکے ہیں، اگر آمریت سے ہمارے ملک میں بھی مثالی ترقی ہوتی اور چائنہ کی طرح یا ملائیشیا کی طرح ہم ترقی کر لیتے تو پھر ہم کہتے کہ یہ جمہوری نظام نہیں چل پایاہم اس نظام کی جانب ہی چلے جاتے ہیں، لیکن اتنی حوصلہ افزا خبریں اور تجربات اس جانب سے بھی موجود نہیں ہے تو اسی لیے ہم یہ نہیں سمجھ پا رہے کہ یہاں پر کیا چلناہے۔افغانستا ن میں امن مذاکرات کے دوران ڈرون حملے کے سوال پر جواب میں وزیر خارجہ خواجہ آصف نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہماری ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ افغانستان میں امن عمل اور مذاکرات کا عمل بغیر کسی رکاوٹ کے آگے بڑھے انہوں نے مزید کہا کہ امریکہ کو چاہئے پا کستا ن ہو یا افغانستان ڈرون حملوں سے گریز کرنا چاہیے ،پا کستا ن کی جغرافیائی سرحدوں کی خلاف ورزی پر ہم ماضی میں بھی احتجاج کرتے رہیں ہیں اور اب بھی امریکہ سے بات کی جائے گی مگر پچھلے ادوار کے مقابلے میں اب ڈرون حملوں میں واضح حد تک کمی آئی ہے جس کی و جہ یہ ہے کہ ہم نے ان علاقوں میں حکومت کی رٹ قائم کی ہے ۔

تازہ ترین