• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نیوٹرون ستاروں کے ٹکرائو سے پیدا ہونیوالی تجاذبی لہروں کا سراغ لگا لیا گیا

کراچی (نیوز ڈیسک) سائنسدانوں نے زمین سے 13کروڑ نوری سال کے فاصلے پر دو نیوٹرون ستاروں کے ٹکرانے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تجاذبی لہروں (گریویٹیشنل ویوز) کا سراغ لگا لیا ہے۔ دو نیوٹرون ستاروں کے ٹکرانے کے نتیجے میں سونے سمیت کئی قیمتیں دھاتیں پیدا ہوتی ہیں۔ حالیہ ہفتوں کے دوران یہ پانچویں مرتبہ ہے کہ سائنسدانوں نے تجاذبی لہریں، جنہیں ثقلی لہریں بھی کہا جاتا ہے، تلاش کی ہیں۔ دونوں نیوٹرون ستاروں کے ٹکرانے کے نتیجے میں کئی قیمتیں دھاتیں، بھاری عناصر بشمول پلاٹینم اور یورنیم پیدا ہوئے۔ سائنسدان نہ صرف زمان و مکان (اسپیس ٹائم) میں نہ صرف ارتعاش کی پیمائش میں کامیاب ہوئے بلکہ انہوں نے سیٹلائٹس اور زمین پر موجود ٹیلی اسکوپس کو استعمال کرکے دونوں ستاروں کے ٹکرانے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی روشنی اور تابکاری کا بھی مشاہدہ کیا۔ ماہرین نے اس دھماکے اور نتیجتاً پیدا ہونے والی روشنی کو ’’کلو نووا‘‘ کا نام دیا ہے۔ پرجوش ماہرینِ فلکیات نے اس دریافت کو فلکیاتی طبعیات (آسٹرو فزکس) کے شعبے میں ایک زبردست انقلاب قرار دیا ہے۔ یہ پیشرفت ماہرین کو نیوٹرون ستاروں کی ساخت اور ان کے ٹکرانے کے نتیجے میں اخراج کو سمجھنے میں بھرپور مدد فراہم کرے گی۔ سائنسدانوں کی ٹیم کے ایک رکن نے اس مظہر کو ’’تاریخ میں طویل عرصہ تک یاد رکھی جانے والی چیز‘‘ قرار دیا ہے۔ واشنگٹن میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کالٹیک میں لیگو لیبارٹری کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر ڈیوڈ رائیٹز کا کہنا تھا کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ کائنات نے ہمیں خاموش فلم کی بجائے بولنے والی فلم دکھائی ہے جس میں بولنے کیلئے جو آواز ہم نے سنی ہے وہ ’’گریویٹیشنل ویوز‘‘ ہیں۔ کائنات میں ہر دوسری گریویٹیشنل ویوز کے تانے بانے اربوں نوری سال کے فاصلے پر موجود بلیک ہولز کے ٹکرانے سے ملتے ہیں تاہم یہ نئی دریافت ہونے والی لہریں نیوٹرون ستاروں کے ٹکرانے کے نتیجے میں پیدا ہوئی ہیں۔ یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے پروفیسر ڈیوڈ بلیئر، جو گریویٹیشنل ویوز پر تحقیق کر رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ انہوں نے ان لہروں پر 1973 سے کام شروع کیا تھا، ابتدائی طور پر یہ صرف ایک خیال ثابت ہوئیں لیکن 44 سال بعد ہم نے بالآخر انہیں کھوج لیا۔
تازہ ترین