• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جلاد کا پیشہ ورثہ میں ملا ہے، 22سال کی عمر میں پہلی پھانسی دی ،صابر مسیح

راچڈل (ہارون نعیم مرزا) عرف عام میں مجرم کو پھانسی دینے والے کو جلاد کہا جاتا ہے اور معاشرہ اس سے سخت نفرت کرتا ہے مگر خاندانی طور پر ورثے میں ملنے والے اس فن کو نسل در نسل اپنایا جاتا ہے تارا مسیح کے خاندان سے تعلق رکھنے والے صابر مسیح نے اب تک سیکڑوں سزائے موت کے مجرمان کو پھانسی دی ہے حصول رزق کا یہ پیشہ اسے خاندانی وراثت میں ملا 2006سے لے کر اب تک صابر مسیح تقریبا 250 افراد کو موت کے گھاٹ اتار چکا ہے صابر مسیح نے بتایا کہ اس کے والد صادق مسیح نے چالیس سال تک مجرمان کو پھانسی دی سال 2000میں انہوں نے اس شعبے کو خیر آباد کہہ دیا صابر مسیح کے دادااور بھائی سبھی نے اسی شعبے کو اپنایا، اس کے بڑے چچا تارا مسیح نے سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو 1979میں پھانسی دی اور دنیا بھر میں شہرت حاصل کی تارا مسیح کا بہاولپور سے کوٹ لکھپت جیل تبادلہ ہو گیا کیونکہ اس کے والد نے ریٹائرمنٹ حاصل کر لی تھی، صابر مسیح نے بتایا کہ ان کے والد نے ذو الفقار علی بھٹو کو پھانسی دینے سے انکار کر دیا جب کہ ان کے چچا تارا مسیح نے اسے نوکری سمجھ کر قبول کیا اور ذو الفقار علی بھٹو کو پھانسی دی ،صابر مسیح نے کہا کہ اسے اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ پھانسی کی سزا پانے والا والا گنہگار ہے یا بے گناہ‘ ملک کا وزیر اعظم ہو یاکوئی بیوروکریٹ چھوٹا مجرم ہے یا بڑا ان کا کام سپرنٹنڈنٹ جیل کے اشارے پر لیور کو کھینچنا ہے لیور کو کھینچنے کے ساتھ ہی رسے سے بندھا ہوا مجرم دھڑم سے نیچے گرتا ہے صابر مسیح نے بتایا کہ جب وہ چھوٹا تھا تو اس وقت بھی ان کے خاندانی پیشے کے متعلق ان کے والد اور چچا آپس میں گفتگو کرتے تھے کہ کس مجرم کی کتنی دیر میں جان نکلی اور کس طرح انہوں نے مجرم کے آخری وقت کو دیکھا وہ بڑے غور سے ان کی باتیں سنتا تھا 33سالہ صابر مسیح نے بتایا کہ وہ اس وقت 22سال کا تھا جب اس نے پہلی مرتبہ ایک نوجوان کو تختہ دار پر لٹکایا اس نوجوان کا نام اس کے ذہن میں موجود ہے مگر وہ ظاہر نہیں کرنا چاہتا اس سے قبل جب اسے یہ اپنا خاندانی پیشہ اپنانا تھا تو اس کے چچا نے ایک مجرم کی پھانسی کے وقت اپنے پاس کھڑا کیا مجرم کے گلے میں رسہ ڈالنے کی تربیت دی اور پھر سپرنٹنڈنٹ جیل کے اشارے پر لیور کھینچنے کے موقع پر بھی وہ موجود تھا صابر مسیح نے بتایا کہ وہ قانون کے مطابق اپنی نوکری کرتا ہے اپنی مرضی کیساتھ کسی کو پھانسی دے سکتا ہے اور نہ ہی وہ اپنی مرضی سے پھانسی گھاٹ سے اتار سکتا ہے صابر مسیح نے بتایا کہ اس نے 8ماہ کے دوران مجرمان کو پھانسی لگانے کی سنچری مکمل کر لی ہے اس نے کہا کہ جب پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی تو پھانسی دینے کا سلسلہ ختم کر دیا گیا جو دسمبر 2014میں اس وقت تک جاری رہاجب دہشت گردوں نے پشاور کے آرمی پبلک سکول میں 150سے زائد بچوں ‘ خواتین اور اساتذہ کو موت کے گھاٹ اتارا اس کے نتیجے میں پوری قوم غمزدہ ہو گئی اور حکومت نے فوری طور پر پھانسیوں پر عائد پابندی ختم کر دی اور پھر وہ مصروف ہو گیا 2007سے لے کر ابتک سزائے موت پانے والے مجرمان کی رحم کی اپیلیں خارج ہونے پر دھڑا دھڑ پھانسیاں لگائی گئیں، صابر مسیح نے بتایا کہ وہ فیصل آباد سے لاہور آ گیا اور اس نے دودہشت گردوں کو اکٹھے پھانسی دی اس نے ہیومن رائٹس آف پاکستان کی اس رپورٹ کو غلط قرار دیا کہ پھانسیوں سے پابندی کے خاتمے کے بعد اب تک 471افراد کوپھانسی دی جا چکی ہے گزشتہ برس 87افراد کو پھانسی دی گئی ان میں سے اکثریت کو صوبہ پنجاب میں پھانسی دی گئی صابر مسیح نے یہ بھی بتایا کہ کوئی بھی خوشی خوشی پھانسی گھاٹ پر کھڑا نہیں ہوتا انہیں زبردستی جیل کے وارڈن پھانسی گھاٹ پر کھڑا کرتے ہیں اس کے گلے کی پہلے پیمائش لی جاتی ہے جب کہ پھانسی سے قبل اس کا وزن بھی کیا جاتا ہے کہ اگر وہ موت کے کنویں میں گرتا ہے تو اس کے وزن سے کہیں رسہ نہ ٹوٹ جائے اور اس کے مطابق رسے کو گرہ لگائی جاتی ہے گرہ لگانا بھی ایک فن ہے جس میں وہ اب ماہر ہو چکا ہے ایک سوال کے جواب میں اس نے کہا کہ لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارنا اس کی نوکری ہے جب کہ سزائے موت کے متعلق اس نے کوئی بھی اپنے ذاتی خیالات دینے سے انکار کر دیا۔
تازہ ترین