• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بڑھتی ہوئی سیاسی کشاکش کے ماحول میں ملکی معیشت اس وقت سیاسی اقتصادی اور سماجی حلقوں میں گرما گرم بحث کا موضوع بنی ہوئی ہے اور بعض حلقے ان خدشات کا اظہار کر رہے ہیں کہ بیرونی قرضوں کے غیر معمولی بوجھ اور انہیں ادا کرنے کی سکت نہ ہونے کی وجہ سے خدانخواستہ ملک اقتصادی طور پر دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ اس بحث کا آغاز اس وقت ہوا جب عالمی بینک کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کم، مالیاتی خسارہ زیادہ جبکہ ادائیگیوں کا حجم 31ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ گویا ملک بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے حوالے سے شدید مشکلات کا شکار ہے۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعتوں اور حکومت مخالف تجزیہ کاروں نے اس رپورٹ کو حکومت کی ناقص مالیاتی حکمت عملی کا نتیجہ قرار دے کر خوب اچھالا جس سے عام آدمی کو بھی پریشانی لاحق ہوئی۔ اس صورت حال میں معاملات کی وضاحت کے لیے وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے پیرکو پریس کانفرنس بلائی اور قوم کو بتایا کہ ملکی معیشت مستحکم ہے اور ڈیفالٹ کا کوئی خطرہ نہیں۔ عالمی بینک نے غلط فہمی کی بنا پر منفی رپورٹ جاری کی جو اس نے واپس لے لی ہے۔ عالمی بینک نے بھی وضاحت کردی ہے کہ پاکستان کی فنانسنگ ضروریات کے بارے میں اعداد و شمار میڈیا کی قیاس آرائیوں پر مبنی ہیں۔ پاکستان نے گزشتہ چار سال میں معاشی طور پر بہت اچھی کارکردگی دکھائی ہے اور اس کی اقتصادی ترقی کی شرح 3.7 فیصد سےبڑھ کر5.3 فیصد ہو گئی ہے۔ نیز ملک کو2018میں بیرونی قرضوں کی ادائیگی کی مد میں31ارب ڈالر کی نہیں بلکہ 17ارب ڈالر کی ضرورت ہو گی اور حکومت پاکستان کا موقف بھی یہی ہے، وزیر خزانہ نے اپنی پریس کانفرنس میں بتایا کہ موجودہ حکومت کے دور میں ترقی کی شرح، فی کس آمدنی اور ترسیلات زر میں اضافہ ہوا ہے،2013میں ڈیفالٹ کا خطرہ تھا لیکن اب صورت حال بہت بہتر ہے۔ گردشی قرضے اس وقت ادائیگیوں کے بعد چار سو ارب روپے رہ گئے ہیں۔ برآمدی پیکیج کے بعد برآمدات میں 10.8فیصد اضافہ ہوا ہے اور مالیاتی خسارہ8.8سے کم ہو کر 8.5رہ گیا ہے افراط زر کم ہو کر 2.4فیصد پر آگئی ہے ہم ترقی کی شرح کو5.3فیصد تک لے آئے ہیں اور اس سال یہ شرح6فیصد تک پہنچا دی جائے گی۔ مہنگائی کی شرح کو بڑھنے نہیں دیا گیا۔ حکومت اپنے اخراجات کو کنٹرول کر رہی ہے، زرمبادلہ کے ذخائر بلند ترین سطح پر پہنچ گئے تھے، اب بھی ٹھیک ہیں۔ ہم روپے کی قدر کم نہیں کر رہے اور آئی ایم ایف سے قرضے لینا بھی بند کر دیئے ہیں۔ حکومتی قرضوں کی شرح دنیا میں بہت سے ممالک سے کم ہے اور بین الاقوامی اداروں کے جائزوں میں پاکستان کی ریٹنگ بتدریج بہتر ہوئی ہے، ٹیکس نیٹ بڑھایا گیا ہے توانائی بحران پر قابو پانے پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے اور لوڈ شیڈنگ کم ترین سطح پر آگئی۔ ادھر وزارت خزانہ کے ترجمان نے بھی کہا ہےکہ پاکستان کو قرضے واپس کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہوگی۔ امریکہ، برطانیہ اور جاپان بھی قرضے لیتے ہیں جن کا بوجھ جی ڈی پر 80سے سو فیصد تک ہوتا ہے اس لیے پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ وزیر خزانہ اور وزرات خزانہ کے ترجمان کے علاوہ آسٹریلیا کے وزیر خارجہ نے بھی پیش گوئی کی ہے کہ2030تک پاکستان اور انڈونیشیا کی معیشت آسٹریلیا پر سبقت لے جائے گی۔ یہ تمام باتیں اپنی جگہ درست ہوں گی مگر ملکی معیشت کے بارے میں عمومی تشویش سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ خاص طورپر بیرونی قرضوں کے بارے میں وزیر خزانہ کو بتانا چاہئے تھا کہ ان قرضوں سے کتنا فائدہ اٹھایا گیا اور انہیں اتارا کیسے جائے گا۔ منفی عوامل کی موجودگی میں معیشت میں بہتری کیسے آئے گی ۔ کراچی کے سیمینار میں آرمی چیف نے درست کہا تھا کہ قومی سکیورٹی اور مضبوط معیشت لازم و ملزوم ہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ ملکی معیشت میں بہتری لانے کے لیے ریاست کے تمام اداروں کو ایک صفحے پر لائے تاکہ مربوط کوششوں اور درست سمت کے ذریعے ملک کو اقتصادی ترقی ا ور خوشحالی کی راہ پرگامزن کیا جا سکے۔

تازہ ترین