• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں حکومت اور فوج کے درمیان تعلقات تنائو کا شکار رہے، ملک افواہوں کی زد میں رہا اور ٹیکنو کریٹس حکومت قائم ہونے اور قبل از وقت الیکشن کی افواہوں نے جنم لیا۔ سوشل میڈیا پر اس طرح کی خبریں عام ہوئیں کہ کچھ ہی دنوں میں حکومت کی بساط لپیٹ دی جائے گی مگر گزشتہ دنوں حکومت اور فوج کی جانب سے تنائو میں اس وقت کمی آئی جب امریکہ سے واپسی پر وزیر داخلہ و منصوبہ بندی احسن اقبال نے اپنے رویئے میں نرمی لاتے ہوئے کہا کہ حکومت اور فوج ایک دوسرے کی پشت پرہیں اور چیزوں کو میڈیا میں متنازع نہ بنایا جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فوج ہمارے ماتھے کا جھومر ہے، فوج کی پشت پر حکومت اور حکومت کی پشت پر فوج ہے۔ اسی طرح آئی ایس پی آر نے بھی اعلان کیا کہ ان افواہوں میں کوئی صداقت نہیں اور جمہوریت کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔
تنائو کا آغاز گزشتہ دنوں فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز اور آئی ایس پی آر کی جانب سے ’’معیشت اور سلامتی کے درمیان ربط‘‘ کے موضوع پر منعقدہ سیمینار میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے معیشت پر دیئے گئے اس بیان سے ہوا تھا کہ ’’آسمان کو چھوتے ہوئے ملکی قرضے اور تجارتی خسارہ اُن کیلئے ازحد تشویش کا باعث ہے۔‘‘ ڈی جی آئی ایس پی آرمیجر جنرل آصف غفور نے بھی معیشت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’’اگر پاکستان کی معیشت بری نہیں تو اچھی بھی نہیں۔‘‘ جس سے حکومت کے حلقوں میں یہ تاثر ابھرا کہ فوج معیشت کو تنقید کا نشانہ بناکر کچھ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ جواباً واشنگٹن کے دورے پر آئے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال نے فوج کی جانب سے معیشت پر دیئے گئے بیان پر خفگی کا اظہار کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کو ملکی معیشت پر تبصروں اور بیانات دینے سے گریز کرنے کو کہا اور یہ دعویٰ کیا کہ 2013ء کے مقابلے میں ملکی معیشت بہت بہتر اور مستحکم ہے اور حکومت سیکورٹی کی تمام ضروریات پوری کررہی ہے۔‘‘ جواباً آئی ایس پی آر کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے ایک پریس کانفرنس میں وزیر داخلہ کے بیان پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اُنہیں ان کے بیان پر بحیثیت سپاہی اور عام شہری افسوس ہوا، وہ فوج کے ترجمان ہیں اور جو کچھ کہتے ہیں وہ مسلح افواج کی جانب سے ہوتا ہے۔ ایسی صورتحال میں حکومتی وزراء کے یہ بیانات بھی سامنے آئے کہ پانامہ لیکس اور جے آئی ٹی سے قبل پاکستانی معیشت ترقی کی جانب گامزن تھی، جی ڈی پی، معاشی اشارے مثبت، افراط زر، انٹرسٹ ریٹ تاریخی سطح پر تھے جس کا اعتراف بین الاقوامی میڈیا اور عالمی مالیاتی ادارے بھی کررہے تھے اور موجودہ حالات کی ذمہ دار حکومت نہیں بلکہ وہ بے یقینی کی صورتحال ہے جو وزیراعظم نواز شریف کے نااہل کرنے کی صورت میں پیدا ہوئی۔
یہ پہلا موقع تھا جب بزنس کمیونٹی اور آرمی کی قیادت کے درمیان اس طرح کا تبادلہ خیال رکھا گیا تھا جس کا انعقاد آئی ایس پی آر اور فیڈریشن نے مشترکہ طور پر کیا تھا جس میں فیڈریشن کے نائب صدر کی حیثیت سے میں بھی موجود تھا۔سیمینار میں پاکستان بھر سے آئی ہوئی بزنس کمیونٹی کی سرکردہ شخصیات ایس ایم منیر، افتخار ملک، اختیار بیگ، فیڈریشن کے صدر زبیر طفیل، سینئر نائب صدر عامر عطا باجوہ کے علاوہ دیگر عہدیداران بھی موجود تھے جبکہ ملک کے سرکردہ تھنک ٹینکس اور ماہر معاشیات سینیٹر مشاہد حسین سید، سابق گورنر اسٹیٹ بینک آف پاکستان ڈاکٹر عشرت حسین، سابق وزیر خزانہ سلمان شاہ، ڈاکٹر اشفاق حسین، فرخ سلیم اور عین الحسن بھی اسپیکر کے طور پر مدعو تھے۔ سیمینار میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ، کور کمانڈر کراچی لیفٹیننٹ جنرل شاہد بیگ مرزا، ڈی جی رینجرز میجر جنرل محمد سعید، ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور، ڈی جی FWO لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل اور آئی ایس پی آر کے اعلیٰ حکام بھی شریک تھے جبکہ حکومت کی جانب سے سیمینار میں کوئی موجود نہیں تھا۔پورے دن جاری رہنے والے سیمینار میں تمام اسپیکرز نے اپنی پریزنٹیشن میں حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ معیشت اور سیکورٹی کو الگ نہیں کیا جاسکتا۔ تحفظ اور سیکورٹی معاشی گروتھ کیلئے لازم و ملزوم ہیں اور مضبوط معیشت سیکورٹی اداروں کی مضبوطی کیلئے معاون و مددگار ثابت ہوتی ہے۔ پاکستان کی معیشت قرضوں میں گھری ہے اور عدم استحکام کا شکار ہے اور اس کی ڈائریکشن درست کرنے اور توجہ دینے کی فوری ضرورت پر زور دیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ معیشت اور سلامتی ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں، معیشت سلامتی کے ہر پہلو پر اثرانداز ہوتی ہے۔ ایک وقت تھا جب جنگیں ٹینکوں اور ہتھیاروں سے لڑی جاتی تھیں مگر آج کا دور معاشی جنگ کا دور ہے اور کسی ملک کو تباہ کرنے کیلئے اس پر ہتھیاروں سے حملہ کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اس ملک کی معیشت کو تباہی سے دوچار کردیں تو ملک ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گا جیسا کہ سوویت یونین کے ساتھ ہوا جو کمزور اقتصادی حالت ہونے کی وجہ سے ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔
بھارت کو یہ معلوم ہے کہ وہ ہتھیاروں کے بل بوتے پر پاکستان کو کبھی فتح نہیں کرسکے گا کیونکہ پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے۔ بھارت اس منصوبے پر کاربند ہے کہ کسی طرح پاکستان کو تنہائی کا شکار کرکے اس کی معیشت کو تباہ کردیا جائے تو پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچایا جاسکتا ہے۔ اسی لئے دشمنوں کی یہ کوشش ہے کہ کسی طرح پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ جو پاکستان کی معیشت کیلئے ریڑھ کی حیثیت کی حیثیت رکھتا ہے، پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکے۔ ہمیں قطعاً گھبرانے کی ضرورت نہیں اور نہ ہی معاشی ایمرجنسی کی ضرورت ہے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے بھی گزشتہ دنوں پریس کانفرنس میں یہ دعویٰ کیا کہ معیشت مستحکم ہے اور ڈیفالٹ کا کوئی خطرہ نہیں اور ان کا آئی ایم ایف کے پاس جانے کا کوئی ارادہ نہیں۔
ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ 1998ء میں جب پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کیا تو ہمارے پاس زرمبادلہ کے کچھ دنوں کے ذخائر موجود تھے مگرقوم نے جواں مردی سے حالات کا مقابلہ کیا اور معاشی حالات بہتر ہوئے۔ پاکستان کی تاریخ رہی ہے کہ پاکستان نے کبھی اپنے قرضوں پر ڈیفالٹ نہیں کیا اور نہ ہی انشاء اللہ ایسی نوبت آئے گی۔ پاکستان کے دو اہم اداروں کے درمیان اس قسم کی الزام تراشیاں اور بیان بازیاں قطعی ملکی مفاد میں نہیں جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ ادارے ایک پیج پر نہیں تاہم یہ ایک مثبت قدم ہے کہ دونوں اداروں نے سمجھداری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے رویئے میں نرمی لائے اور ایک پیج پر ہونے کا ثبوت دیا جس سے ملک میں اڑتی ہوئی افواہوں نے دم توڑ دیا جو یقیناً معیشت کیلئے ایک مثبت قدم ہے جس سے سیاسی استحکام پیدا ہوگا اور معیشت ترقی کے راستے پر گامزن ہوگی

تازہ ترین