• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے معیشت کے بارے میں بیان کے کئی پہلو ہیں ۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ یہ پہلی مرتبہ ہے کسی فوجی سربراہ نے معیشت کی اولیت کا ذکر کیا ہو اور ملک میں چار دہائیوں سے جاری ریاست کے نظریاتی بیانیہ کو تبدیل کرنے کی کوشش کی ہو۔ لیکن جب جنرل قمر جاوید باجوہ دنیا کی تاریخ کے سیاق و سباق میں حقیقت پسندانہ نقطہ نظر پیش کر رہے تھے تو اسی دوران قومی اسمبلی کے ممبر کیپٹن صفدر (ر) پاکستان کی ایک اقلیت کا ناطقہ بند کرنے کے لئے پھیپھڑوں کی پوری طاقت استعمال کر رہے تھے۔ یہ علامت ہے کہ پاکستانی معاشرے میں ریاست کا مذہبی بیانیہ تبدیل نہیں ہوا اور نتیجتاً ملک کے معاشی بیانیہ کے تبدیل ہونے کی توقع بھی عبث ہے: ریاست کا نظریاتی بیانیہ معاشرے کو ہر پہلو سے متاثر کرتا ہے اور قومی فکری ارتقاء میں اس کی حیثیت مرکزی ہوتی ہے۔
جنرل قمر جاوید باجوہ کے بیان میں پہلی مرتبہ یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ سوویت یونین کو ضیاء الحق کے پالے ہوئے افغان مجاہدین نے تباہ نہیں کیا تھابلکہ اس کی وجہ معاشی کمزوریاں تھیں۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ پاکستان کی سیکورٹی اسٹیبلشمنٹ خواہ کتنی بھی مضبوط ہو وہ ریاست کے ڈھانچے کا تحفظ نہیں کر سکتی اگر ملک کی معیشت بد حالی کا شکار ہو۔ یہ ایک بہت بنیادی سچ ہے جس کا پاکستان میں قومی سطح پر ادراک نہیں تھا: اس کی بجائے پاکستان کا قومی بیانیہ یہ رہا ہے کہ پاکستان ایک نظریاتی ریاست ہے جس کا مقصد مذہبی صالحین کا معاشرہ قائم کرنا ہے۔ معاشی ترقی پاکستانی معاشرے کی ترجیح نہیں رہی ہے۔
شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی فوج میں ریاستی بیانیہ کے بارے میں آگہی جنرل راحیل شریف کے زمانے سے گہری ہوئی ہے۔ پاکستان کے عسکری حلقوں میں یہ احساس مضبوط ہوتا گیا ہے کہ اگر ہندوستان پچھلی تین دہائیوں کی طرح معاشی ترقی کرتا رہا تو پاکستان کی علاقائی حیثیت ماند پڑجائے گی۔ یہ شک اب یقین میں تبدیل ہو رہا ہے کہ ہندوستان کاعالمی ابھار اس کی معاشی طاقت کا پرتو ہے۔ چین کی معاشی ترقی اور اس کا دنیا میں وقار قائم ہونا بھی یہ ظاہر کرتا ہے کہ آخر کار معاشی ترقی ہی قوموں کے افتخار کا سبب بنتی ہے۔ لگتا ہے کہ اسی فکری پس منظر میں جنرل راحیل شریف نے جہادی گروہوں اور کراچی کے غارتگروں کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا۔ اس عمل کو جنرل جاوید قمر باجوہ کے زمانے میں جاری رکھا گیا اور اس کے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ اب پاکستان میں مسلح گروہوں کا تقریباً خاتمہ کر دیا گیا ہے۔ لیکن اس سلسلے میں یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ مسلح جہادیوں اور کراچی کے شر پسند عناصر کو پیدا بھی فوجی حکمرانوں نے کیا تھا: جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف جہادی کلچر اور سیاسی طوائف الملوکی کے خالق تھے۔اس لئے جنرل راحیل شریف کے زمانے سے اب تک جو کچھ کیا گیا ہے وہ ماضی کی غلطیوں کا ازالہ تھا۔
پاکستان کی موجودہ معاشی پس ماندگی کا ماضی سے گہرا تعلق ہے۔ ہندوستان اور چین نے آزادی کے بعد جامع زرعی اصلاحات کے ذریعے جاگیرداری کا خاتمہ کردیا جس کا نتیجہ ہے کہ دونوں ملکوں میں سیاسی سربراہ درمیانے طبقے سے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں میں معاشی خود کفالت کو اولین ترجیح دی گئی اور سماجی سطح پر نئے تجربات کئے گئے۔ چین میں تو شروع سے ہی تعلیم اور صحت کے شعبوں میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کی گئی۔ پاکستان میں نہ تو زرعی اصلاحات نافذ کی گئیں اور نہ ہی سماجی شعبے میں سرمایہ کاری کی گئی۔ مزید برآں معاشی خود کفالت کی بجائے امریکہ اور دوسری مغربی طاقتوں کی امداد پر انحصارکیا گیا۔ اس کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کی معیشت مسلسل عمل کی بجائے بیرونی طاقتوں کی خوشنودگی پر تکیہ کرتی رہی ہے۔ ایوب خان کے زمانے میں پاکستان کو روس اور دوسرے سوشلسٹ ممالک کے خلاف امریکہ سے تعاون کرنے کے صلے میں مالی امداد دی گئی جس سے عارضی معاشی ترقی رو پذیر ہوئی۔ اسی طرح ضیاء الحق کو افغانستان میں جہاد کروانے کے لئے امریکیوں نے ڈالروں کی بارش کی۔ جنرل مشرف کو بھی نو گیارہ کے بعد بھاری بھر کم معاشی امداد سے نوازا گیا۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستانی معیشت کو جب بیرونی امداد کے ٹیکے لگے تو وہ صحت مند نظر آنے لگی وگرنہ حالات دگر گوں ہی رہے۔ اب بھی سارا انحصار ایک دوسری عالمی طاقت چین پر کیا جا رہا ہے جو کہ صحت مند رجحان نہیں ہے۔ پاکستان میں معاشی ترقی کے عمل کو تسلسل بخشنے کے لئے ریاست اور اس کے اداروں کی نظریاتی جہت درست کرنے کی ضرورت ہے۔پاکستان میں جس بیانیے کو ریاست کی اساس قرار دیا گیا، اس میں بنیادی تبدیلیاں لانے کی اشد ضرورت ہے۔
کچھ لوگوں کے خیال میںپاکستان میں مذہبی بنیاد پرستی کابیانیہ تو بہت شروع میں قرارداد مقاصد کی منظوری سے ہی شروع ہو گیا تھا لیکن اس میں اصل بنیادی اضافہ ستر کی دہائی میں ہوا۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے مذہبی پارٹیوں کا سیاسی بیانیہ اپنا لیا تھا۔ ستر کی دہائی سے لیکر اب تک اسٹیبلشمنٹ اور ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر میاں نواز شریف تک سارے سیاستدان موقع پرستی کا شکار رہے ہیں۔ تقریباً سارے سیاستدان وقتی سیاسی مفادات کے لئے مذہب کا بے محابا استعمال کرتے رہے۔ جہاں تنگ نظرمذہبی بیانیے کی وجہ سے سیاسی اور سماجی آزادی معدوم ہوئی وہیں معاشی ترجیحات پر بھی منفی اثر پڑا۔ اس بیانیے کی بنیاد ہی یہی ہے کہ فرد اس دنیا میں معاشی ترقی کرنے کی بجائے آخرت اور آنے والی زندگی پر توجہ دے۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں خود کش بمبار پیدا ہوئے جو حور و قصور کیلئے اپنی جان دینے پر آمادہ ہو گئے۔ یہ بیانیہ ہی ہے جس کی وجہ سے خاندانی منصوبہ بندی پر کوئی عمل نہیں ہوا اور آبادی موجود معاشی وسائل سے کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ الغرض اس بیانیے نے زندگی کے تمام شعبوں متاثر کیا ہے۔
اب جبکہ جنرل قمر جاوید باجوہ ریاست کے تحفظ کے لئے معاشی ترقی کے عمل کو اہمیت دے رہے ہیں تو انہیں یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ معاشی ترقی کے لئے ریاست کا نظریاتی بیانیہ تبدیل کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اگر پاکستان نے مغربی طرز کا جمہوری معاشرہ بننا ہے تو اسے نہ صرف ہر شعبہ حیات میں روشن خیالی کی روش اختیار کرنی پڑے گی بلکہ ریاستی امور چلانے کے لئے سویلین خود مختاری اور برتری کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا۔ معاشی ترقی کے راستے پر چلنے کیلئے معاشرے کی بنیادی ترجیحات تبدیل کرنا ہوگا۔

تازہ ترین