• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کہیں گے کہ کیا ان مل بے جوڑ عنوان ہے اس کالم کا۔ یعنی ماروں گھٹنا پھوٹے آنکھ۔ کہاں اعصاب کا امتحان اور کہاں ملتان کے آم۔ لیکن ادب کے استادوں سے پوچھ لیجئے کہ ادب میں ان مل بے جو ڑ بھی ایک چیز ہو تی ہے۔ اب یہ کوئی صنف ہے یا نہیں، لیکن ان مل بے جوڑ شاعری ضرور ہوتی ہے۔ یعنی شتر گربہ۔ یار لوگوں کو ہماری آج کی سیاسی صورت حال بھی کچھ ان مل بے جوڑ ہی نظر آ رہی ہے۔ اس صورت حال کو ہمارے اکثر نابغۂ روزگار مبصر اور تجزیہ نگار ذہنی انتشار اور دماغی خلفشار سے تعبیر کر رہے ہیں۔ گویا کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ کل کیا ہونے والا ہے۔ ایک دن ایک صاحب دو اور دو چار کا حساب لگا کر ٹیکنو کریٹس (نوکر شاہی یا افسر شاہی) کی عبوری حکومت قائم ہونے کی پیش گوئی کرتے ہیں، تو دوسرے دن ان حلقوں کی طرف سے اس کی تردید کر دی جاتی ہے جن حلقوں سے یہ عبوری حکومت بنانے کی توقع کی جاتی ہے۔ ایک دن جمہوریت اور جمہوری حکومت کی خامیوں اور ناکامیوں کی فہرست گنوا کر کہا جاتا ہے کہ اس کا حل نئے انتخابات ہیں تو دوسرے دن بالائی حلقوں کی طرف سے یقین دلا دیا جاتا ہے کہ جمہوریت کو ہماری طرف سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یعنی خطرہ جمہوریت کو جمہوریت سے ہی ہے۔ قومی اسمبلی میں کیپٹن صفدر جو آگ بھڑکاتے ہیں وہ سوچنے سمجھنے والوں کو حیران کر دیتی ہے کہ ان کے سسر تو کچھ اور کہہ رہے ہیں، اور یہ صاحب کوئی اور ہی راگ الاپ رہے ہیں۔ کچھ لوگ کیپٹن صاحب کے عقیدے اور خیالات کا ذکر بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کا تو ہمیشہ سے یہی عقیدہ اور یہی خیالات رہے ہیں۔ لیکن ہمارا خیال یہ ہے کہ یہ سب اعصاب کی جنگ یا اعصاب کا امتحان ہے۔ مقابلہ یہ ہے کہ کس کے اعصاب زیادہ مضبوط اور کس کے اعصاب زیادہ کمزور ہیں۔ یہ پلک جھپکنے کا مقابلہ ہے کہ کون پہلے پلک جھپکتا ہے۔ اب یہ کہتے ہوئے ڈر لگتا ہے لیکن ذرا سوچئے کہ عدالتوں کے اندر اور عدالتوں کے باہر جو کچھ ہو رہا ہے کیا یہ بھی اعصاب کا امتحان یا اعصاب کی جنگ ہی نہیں ہے؟ بس اس سے آگے ہم اور کچھ کہنا نہیں چاہتے۔
آیئے اب ملتان کی بات کرتے ہیں۔ ہم تو ملتان والوں کو یہ بتانے والے تھے کہ تمہارا ملتان آج ہندوستان میں بھی پھل پھول رہا ہے۔ خبر آئی ہے کہ راجستھان کے ایک شہر میں ایک مسلمان کو اس وجہ سے مار مار کر ادھ موا کر دیا گیا کہ وہ ایک ہندو لڑکی کو لے کر ایک ہوٹل میں ٹھہرنے گیا تھا۔ ہمیں اس سے تو کوئی غرض نہیں ہے کہ ایک مسلمان نوجوان کی یہ شامت کیوں آئی؟ کیونکہ ہندوستان میں اب یہ کوئی نئی بات نہیں رہی ہے۔ ارن دھتی رائے کے بقول جب سے ’’گجراتی للا‘‘ کی سرکار آئی ہے یہ قریب قریب روزمرہ کا ہی معمول بن گیا ہے۔ کبھی گئو رکشا کے نام پر تو کبھی اس قصور میں کہ ایک راجستھانی گانے والے نے بھجن کے الفاظ کا تلفظ صحیح نہیں کیا تھا۔ حالانکہ یہ مسلمان خاندان سینکڑوں سال سے یہی بھجن گاتا چلا آ رہا ہے۔ ہمیں تو یہ جان کر خوشی ہوئی تھی کہ جس ہوٹل میں وہ نوجوان ٹھہرا تھا اس کے مالک کا نام ’’ملتان پریہر‘‘ ہے۔ ظاہر ہے اس کا خاندان تقسیم کے وقت ملتان سے وہاں گیا ہو گا۔ اور اس کے باپ نے اپنے آبائی شہر ملتان کو ہمیشہ یاد رکھنے کے لئے اپنے بیٹے کا نام ملتان رکھا ہو گا۔ خود یاد رکھنے کے لئے اور اپنے بچوں کو بھی یاد دلانے کے لئے کہ وہ ملتان سے یہاں آئے ہیں۔اور یہ ’’پریہر‘‘ اس کی ذات یا گوت ہو گی۔ لتان والے خود تو ایسے نام نہیں رکھتے، لیکن ملتان سے باہر یہ نام پہنچ گیا ہے۔ اور ہاں، ملتان میں تو ملتان خاں جیسا نام نہیں سنا، البتہ کسی زمانے میں پیپلز پارٹی کے وزیر مختار اعوان کا ایک ملازم بنارس خاں ضرور تھا۔ اب ہم یہاں ایک اور شش و پنج میں پڑ گئے ہیں۔ یہ کسی ماہر لسانیات سے پوچھنا پڑے گا کہ یہ بنارس خاں اور ملتان خاں یا ملتان پریہر نام تو رکھے جاتے تھے مگر کبھی کسی نے لاہور خاں، دہلی خاں یا لکھنؤ خاں نام کیوں نہیں رکھا؟ بجا، کہ بنارس اور ملتان مقدس مقام مانے جاتے ہیں مگر مسلمانوں اور ہندوئوں کے ان جیسے مقدس مقامات اور بھی تو ہیں؟
لیجئے، ہم پھر بھٹک گئے۔ کل ہی ایک انگریزی اخبار میں ایک ڈیڑھ صفحے کا فیچر چھپا ہے کہ ملتان میں آم ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ وجہ اس کی یہ بیان کی گئی ہے کہ ملتان شہر اور اس ک نواح میں جہاں آموں کے باغ تھے وہاں اب نئی نئی کالونیاں اور بستیاں بنائی جا رہی ہیں۔ آموں کے باغ والوں کو اس میں زیادہ فائدہ نظر آ رہا ہے کہ پیڑ کاٹ کر باغ کی زمین کے ٹکرے ٹکڑے کئے جائیں اور یہ ٹکڑے فروخت کر کے کروڑوں روپے کما لئے جائیں۔ آموں کے باغوں پر تو سال بھر محنت کرنا پڑتی ہے۔ سال بھر کی محنت کے بعد کہیں آم آتے ہیں۔ کبھی فصل اچھی ہوتی ہے کبھی نہیں۔ بہت سے آم کبھی آندھیاں کھا جاتی ہیں تو کبھی کیڑے مکوڑے۔ پھر یہ باغ ٹھیکے پر دیئے جاتے ہیں۔ اس طرح کہیں جا کر آمدنی ہوتی ہے۔ کالونیاں بنانے سے ایک دم کروڑوں اور اربوں روپے آ جاتے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ باغ کم ہوں گے تو آم بھی کم ہوں گے۔ آم کم ہوں گے تو مہنگے بھی ہوں گے۔ اب تو خیر آموں کا موسم ختم ہو گیا ہے مگر آموں کے موسم میں بھی لاہور میں آم اتنے مہنگے تھے کہ ایک ایک آم سو سو روپے تک پہنچ گیا تھا۔ ہمیں تو وہ زمانہ یاد ہے جب ملتان میں ہم سبزی منڈی سے ٹوکرے بھر بھر کے آم لاتے تھے۔ اور وہ آم ختم ہونے میں نہیں آتے تھے۔ لیکن اب ہم آموں کو بھی ترسیں گے۔ لیکن بھائی، ہم آموں اور ان کے باغوں کو ہی کیوں رو رہے ہیں۔ یہ انسانی آبادیاں اور یہ منافع کا لالچ تو ہماری سبزی ترکاری بھی کھا گیا ہے۔ آج پیاز اور ٹماٹر دو دو سو تین تین سو روپے فی کلو تک پہنچ گئے ہیں تو اس کی وجہ بھی یہ بڑھتی اور پھیلتی ہوئی انسانی آبادیاں ہی تو ہیں جو ساری زرعی زمین ہڑپ کرتی جا رہی ہیں۔ کتنے شرم کی بات ہے کہ ہم سبزی ترکاری بھی باہر سے منگا رہے ہیں۔ کہہ لیجئے کہ یہ بھی اعصاب کی جنگ ہے۔ اور ہم یہ جنگ بھی ہارتے جا رہے ہیں۔

تازہ ترین