• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی وزیر دفاع کی جنگی حکمت عملی اور تاریخ فہمی؟

اصل موضوع سے قبل ایک اچھی اور مثبت خبر کہ پاکستان نے اقوام متحدہ کی ’’ہیومن رائٹس کونسل‘‘ کی ایشیائی نشست کا انتخاب جیت لیا ہے۔ عالمی ’’ہیومن رائٹس کمیشن‘کو 2006میں ختم کرکے اقوام متحدہ نے انسانی حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لئے اعلیٰ ترین ادارہ کے طور پر یہ کونسل قائم کی جس کے 47منتخب رکن ممالک میں سے 13ایشیائی 13یورپی اور 13افریقی ممالک اور 8لاطینی امریکہ کے ممالک پر تین سالہ مدت کے لئے منتخب ہوتے ہیں۔ بھارت، بنگلہ دیش، انڈونیشیا اور قطر اپنی تین سالہ میعادپوری ہونے پر کونسل کی چار نشستیں 31دسمبر 2017 کو خالی کریں گے۔ لہٰذا نیپال، افغانستان، پاکستان، ملائشیا مالدیپ نئے امیدوار اور قطر اپنی دوسری تین سالہ میعادکے لئے امیدوار تھا کہ مالدیب دستبردار ہوگیا اور چار نشستوں کے لئے پانچ امیدوار میدان میں رہ گئے پاکستان 151ووٹ حاصل کرے یکم جنوری 2018 سے تین سال کے لئے نیپال، افغانستان اور قطر کے ساتھ اس ہیومن رائٹس کونسل پر اپنی نشست سنبھالے گا۔ اس کامیابی پر ہماری سفیر ملیحہ لودھی مبارکباد کی مستحق ہیں۔
وزیرخارجہ خواجہ آصف کے دورۂ واشنگٹن اور ایک انٹر ایجنسی نمائندوں پر مشتمل اہم امریکی نمائندوں پر مشتمل وفد کے دورہ پاکستان کے بعد اب امریکی وزیرخارجہ ٹلرسن کی اسلام آباد آمد کا انتظار ہے لیکن اس دوران امریکی ڈرونز کے تازہ حملے کے ذریعے پاکستان کوجو پیغام دیا گیا وہ کوئی مثبت پیغام نہیں ہے بلکہ میری رائے میں یہ ’’گاجر‘‘ اور ’’ڈنڈا‘‘ کی امریکی پالیسی کا بھی حصہ یوں نہیں کہ ماضی میں ملا منصور کی ڈرونز حملے میں ہلاکت بھی امریکی پالیسی کے مذکورہ اصول کے تحت نہ تو سزا کا ڈنڈا تھی اور نہ ہی انعام میں گاجر تھی بلکہ طالبان کو مذاکرات کے لئے طالبان کو آمادہ کرنےکی پاکستانی کوششوں کو سبوتاژکرنا تھا۔ امریکی وزیرخارجہ ٹلر سن کی آمد سے قبل تازہ ڈرون حملہ ایک طرف تو امیر کینیڈین فیملی کی بازیابی میں پاکستانی رول کے مثبت امیج کو ختم کرکے بہتر ماحول میں کسی ڈائیلاگ کی بجائے ٹلر سن کی آمد پر کشیدگی کا ماحول پیدا کرنا اور صدر ٹرمپ کے اگست والے اعلان اور جنوبی ایشیا اسٹرٹیجی پر اصرار قائم رکھنے کا اشارہ ہے۔ گو کہ ابھی واضح نہیں کہ امریکی وزیر دفاع جیمز میٹس پاکستان کا دورہ کب کریں گے؟ تاہم امکان موجود ہے۔ بعض حلقوں کا 16اکتوبر کو ہونے والے پاک افغان سرحد کے قریب ڈرون حملے کے بارے میں ایک منفرد خیال یہ ہے کہ امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ ڈپلومیسی اور ڈائیلاگ کے ذریعے طالبان اور افغان مسائل کے حل کی بات اور کوشش کا حامی ہے جبکہ صدر ٹرمپ کے جرنیل مشیروں کی ٹیم ایک بار پھر منظم ہوکر پنٹاگون کی برتری قائم رکھنے اور فوجی انداز میں کامیابی کا حصول چاہتی ہے۔ تاہم اس معاملے کو واشنگٹن کی بجائے پاک افغان سرحدوں پر ڈرونز کے استعمال سے طے کرنے کا مطلب و مقصد سمجھ سے بالاتر ہے۔ انہی تاریخوں میں مسقط اومان میں طالبان سے مذاکرات کی جو خبریں چل رہی تھیں اس کا تناظر بھی اب واضح ہے۔
یوں بھی وزیر خارجہ ٹلر سن کے ایک روزہ دورہ پاکستان اور پھر افغانستان سے کسی ڈرامائی تبدیلی کی توقع نہیں ہے۔ سابق افغان صدر حامد کرزئی کی پریس کانفرنس اور افغانستان میں نئی امریکی تیاریوں کی مخالفت اور افغان حکومت اور قائدین کے بیانات انتہائی قابل تعریف ہیں۔ پاک افغان مسائل کو آپس میں مل کر مقامی حل تلاش کرنے کی اپروچ بھی قابل تحسین ہے لیکن کافی تاخیر سے یہ خیال آیا ہے۔ مسئلے کے عالمی فریق اپنی حکمت عملی اور اس کے مطابق نفع و نقصان کے اندازے لگاکر اپنی تیاریوںمیں لگے ہوئے ہیں دوسروں کو ڈائیلاگ اور روز مرہ کے حالات کے الجھائو میں مصروف رکھ کر اپنے مقاصد کی تیاری مکمل کرنا ذہین اقوام کا شیوہ رہا ہے لیکن ہم نے تاریخ کو ماضی کے اوراق سمجھ کر ان سے مستقبل کے لئے کچھ سیکھنے کی عادت کو بالکل ترک کر رکھا ہے۔ جبکہ اکیسویں صدی میں ’’امریکہ فرسٹ‘‘ کے نعرے پر یقین رکھ کر دنیا میں امریکی برتری قائم کرنے والے افراد اس مقصد کے لئے تاریخ سے سبق کیسے حاصل کرتے ہیں ۔اس کی ایک مثال موجودہ امریکی وزیر دفاع جنرل (ر) جیمز میٹس کی ہےجو نہ صرف افغانسان کی جنگ کا تجربہ رکھتے ہیں بلکہ خلیج کی جنگ، جنوبی ایشیا، سینٹرل ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے عراق اور دیگر جنگی اور دفاعی محاذوں پر کمانڈ اور فیصلوں کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں 44سال فوجی ملازمت کے دوران ری پبلیکن صدر جارج بش اور ڈیموکریٹ صدر اوباما کے تحت کام کرچکے ہیں۔ اعلیٰ فوجی حلقوں میں ’’انٹلکچول ‘‘ یعنی دانشور ملٹری آفیسر اور عام فوجیوں میں "CHOAS"اور "MAD DO4"کے ناموں کے علاوہ (WARRIOR MONK) یعنی جنگجو پروہت، کے القابات سے مشہور رہے ہیں۔ جنرل میٹس کی والدہ امریکی فوج کے شعبے انٹلی جنس اور والد امریکی ایٹم بم کے لئے ایٹمی مواد تیار کرنے والے پلانٹ میں ملازم تھے۔ تاریخی امریکی ’’مین ہیٹن‘‘ پروجیکٹ کا اہم حصہ تھے۔ ان کے گھر میں ٹی وی نہیں تھا مگر کتابوں کا ہجوم تھا اس ماحول میں پلنے والے جیمز میٹس نے بطور میرین کرنل پرویز مشرف کے دور میں ان کی خفیہ اجازت کے ساتھ پاکستان کے راستے خفیہ طور پر اپنی بریگیڈ کے ساتھ داخل ہوکر جنوبی افغانستان میں داخل ہوئے اور امریکی ٹاسک فورس 58کے ذریعے خفیہ آپریشن بھی کیا جس کی تفصیل پرویزمشرف ہی بتاسکتے ہیں اور وہ امریکی فوج کی سینٹرل کمانڈ کے گیارہویں سربراہ بھی رہے ہیں اور ریٹائر ہوکر اب امریکی وزیر دفاع کی ذمہ داریاں سنبھالے ہوئے ہیں۔ ہمارے سیاست داںیا فوجی حکمراں اتنا تجربہ اور عہدے حاصل ہونے کے بعد خود کو ہی اتھارٹی سمجھ کر کتاب یا تاریخ سے کوئی سبق سیکھنے کی بجائے خود کو مینارہ نور قرار دے بیٹھتے ہیں لیکن جنرل جیمز میٹس شمالی کوریا کے موجودہ بحران کا حل تلاش کرنے کےلئے 54سال قبل شائع ہونے والی ایک کتاب نہ صرف خود پڑھ رے ہیں بلکہ وہ اپنے فوجی افسروں اور لیکچر سننے والوں کو بھی یہ کتاب پڑھنے کی تلقین کررہے ہیں۔ اس کتاب کے مصنف ٹی آر فاحر باخ ہیں جو 88سال کی عمر میں کئی سال قبل فوت ہوچکے۔ کتاب کا عنوان ’’کلاسیکل کورین وار‘‘ ہے اور عنوان (THIS KIND OF WAR)ہے۔ اس کتاب میں کورین جنگ میں امریکی حکمت عملی کی غلطیاں، دشمن کی اسٹرٹیجی اور زمینی حقائق کا تجزیہ شامل ہے۔ کیا خوب ہے کہ امریکی جنرل اپنے کسی جنگی کیئریر، تجربہ اور وزیردفاع کے عہدے کا تکبر کئے بغیر شمالی کوریا کے موجودہ چیلنج کا سامنا کرنے کے لئے 54سال قبل شائع ہونے والی کتاب کا مطالعہ کرتا ہے اور اعلانیہ اس کتاب سے سیکھنے کا اعتراف بھی کرتا ہے۔ کتاب کے مصنف جو کہ کرنل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے ان کی تحریر وتجزیہ کو جنرل میٹس خراج تحسین پیش کرتاہے۔ ہمارے ہاں تو محض کمانڈو ہونے کے تجربے کو ایک حکمراں نے دنیا کے سامنے بڑے تکبر سے پیش کرنے کی روایت قائم کی۔ یہی امریکی وزیر دفاع جنرل میٹس افغانستان میں امریکی ناکامی کو امریکی فوجی کامیابی میں تبدیل کرنے کی پلاننگ میں مصروف ہیں۔ کیا ہم نے تاریخ کے اتار چڑھائو سے کوئی سبق سیکھا ہے؟ اقتدار حاصل کرنے ،حکومت بنانے اور گرانے کے جنون میں نہ تو گرد و پیش حالات پر نظر ڈالی نہ ہی تاریخ سے کوئی سبق سیکھا ۔ 1971 میں پاکستان میں سے بنگلہ دیش نے جنم لیا۔ تاریخی شکست ہمارا مقدر بنی، تاریخی، سیاسی شخصیات کی سیاسی لڑائیاں ہوئیں لیکن ہم نے نہ تو پڑھنے اور سمجھنے کی ضرورت محسوس کی اور نہ ہی تاریخ سے کچھ سیکھا۔ ہمارے حکمرانوں نے نہ تو پہلی افغان جنگ کی غلطیوں کا مطالعہ کیا اور نہ ہی دوسری افغان جنگ میں شریک ہونےسے پہلے ماضی پر نظر ڈالی۔ امریکی وزیر دفاع جنرل میٹس سائبر اور ڈرونز کے دور میں فوجی بوٹوں کی کسی سرزمین پر موجودگی کو جنگ کی بنیادی نیچر قراردیتا ہے ہم اپنے ہی ملک کی حفاظت اور سلامتی کے لئے قدم ملاکر متحدہ ہوکر کھڑا ہونا بھی غیر ضروری سمجھتے ہیں 70سالہ پاکستان کی سلامتی اور مفاد کے لئے 67امریکی جنرل کی طرح تاریخ کی غلطیوں سے سیکھنے اور سمجھنے کی عادت ڈالنے ہی میں بھلا ہے۔

تازہ ترین