• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی ڈائری:مسلم لیگ نواز پر بیرونی یلغار زوروں پر

اسلام آباد(محمد صالح ظافر، خصوصی تجزیہ نگار)سبکدوش وزیراعظم کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز شریف کی لاہور میں اپنے چچا وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف اور عم زاد حمزہ شہباز اور سلمان شہباز سے خوشگوار ملاقات ایسے ماحول میں ہوئی جب حکمراں پاکستان مسلم لیگ نواز پر بیرونی یلغار زوروں پر ہے، اس کے مخالفین مشرق و مغرب کی ہر برائی اس کے کھاتے میں ڈالنے کے درپے ہیں تاکہ اس کی خدمات اور کارکردگی کو گہنایا جا سکے جب کہ داخلی اعتبار سے مسلم لیگ (ن) کو حصوں بخروں میں بیان کرنے کے لئے پورا زور استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہ بات بڑے وثوق سے کہنے والوں کو کسی نامعلوم جگہ سے تار آتی ہے کہ نواز شریف کی زیرقیادت پاکستان کی خالق اس جماعت میں مثالیت پرستوں اور عملیت پسندوں کے درمیان حد فاصل کھڑی ہو گئی ہے۔ اس دھڑے بازی میں ایک گروہ مرنے مارنے پر تلا ہے اور ایسے غیر لچکدار رویئے کو اپنانے کی بات کرتا ہے جس میں مفاہمت کا کوئی گزر نہ ہو جب کہ دوسرا مصلحت پسندی کا علمبردار ہے۔ وہ اس امر کا خواہاں ہے کہ طوفان بدتمیزی کے سامنے تن کر کھڑا ہونے کی بجائے قدرے جھک کر آندھی کے تھپیڑوں کو گزرنے دیا جائے۔ سیاسی جماعتوں بالخصوص پاکستان مسلم لیگ (ن) جیسی ہمہ گیر جماعت میں اختلاف رائے اور سوچ میں تفاوت ہونا سراسر قدرتی ہے، رائے اور فکر کی یکسانیت ’’رجمنٹڈ گروپ‘‘ میں ہوتی ہے جسے عسکری گروہ کہا جاتا ہے۔ ہمارے نظام کا ضعف اس فطری صف بندی کا اعتراف کرنے سے روکتا ہے۔ یہاں بات کا بتنگڑ بنایا جاتا ہے اور نواز مسلم لیگ کے مخالفین کو تو اس میں یدطولیٰ حاصل ہے۔ پورا ملک اس امر کا شاہد ہے کہ ان لوگوں کی زبان سے سوا پانچ سال کے عرصے میں ایک مرتبہ بھی کلمہ خیر ادا نہیں ہوا۔ وہ جب بھی مخاطب ہوئے اور زبان کھولی انہوں نے گالی دی، الزام عائد کیا، فرضی کہانیاں تھوپ کر فریق ثانی کو بدترین ثابت کرنے کی کوشش کی، اس حقیقت کے باوجود کہ ان کے یمین و یسار اول درجے کے لٹیرے اور ٹھگ ہیں، قرضے خور ہیں، قبضہ گروپ ہیں اور بدعنوانی میں اپنا ثانی نہیں رکھتے وہ اپنے مخالفین کو لگاتار برا بھلا کہتے چلے جا رہے ہیں۔ محترمہ مریم نواز کی اس ملاقات کو مسلم لیگی حلقے لامحالہ امید افزا اور خوش آئند قرار دیں گے۔ یہ بات افسوسناک ہے کہ اس ملاقات کے بارے میں جو سیاسی سے زیادہ خانگی اہمیت کی حامل تھی ایسے لوگوں نے بھی منفی تبصرہ آرائی کی جنہیں ان نازک رشتوں کا سرے سے شعور ہی نہیں۔ وہ راتب کی تلاش میں خود درگاہیں بدلتے رہتے ہیں۔ وہ ہر اس کا فرزند بننے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں جو ان کی جھولی میں کوئی مراد ڈال دے۔ وہ ان دنوں اس شخص کے مربی اور رہبر بنے ہیں جس نے چند سال قبل انہیں ذاتی خدمت گار بنانے کے لئے بھی نااہل قرار دے دیا تھا۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ وہ وقت دور نہیں جب یہی شخص اپنے ممدوح کا گریبان پکڑے دکھائی دے گا کیونکہ اس نے ماضی کے اپنے کسی محسن کو معاف نہیں کیا۔ منگل کو تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے اپنے صوبے میں ایک جامعہ میں خطاب کرتے ہوئے طویل لاف زنی کی اس اجتماع میں باپردہ طالبات کی موجودگی میں خان کی موجودگی اور خطاب سے جھرجھری سی آ رہی تھی۔ اس پوری تقریر میں کوئی نئی بات نہیں تھی، چند مقدس حوالے ضرور دیئے تھے جن کا تذکرہ صاحب تقریر کے کردار سے کسی طور پر لگا نہیں کھاتا۔ اپنی تقریر میں خان نے ایک مرتبہ پھر اسی غلط تخمینے اور اندازے کا سہارا لیا جس کا ارتکاب گزشتہ عام انتخابات کے تناظر اور اس کے بعد ہوئے پے در پے ضمنی انتخابات میں ان سے ہوا تھا۔ عمران نے پھر دعویٰ کیا کہ آئندہ انتخابات کے نتیجے میں وہ حکومت بنائیں گے۔ عام انتخابات سے پہلے یا انتخابی مہم کے دوران ایسے دعوے سیاسی ضرورت کے تحت کئے جاتے ہیں لیکن جس پیرائے میں تحریک انصاف کے سربراہ یہ بات کر رہے تھے اس میں یہ اندیشہ باردگر موجود تھا کہ اگر وہ توقع کے عین مطابق انتخابات میں شکست کھا جاتے ہیں تو ان کے نزدیک یہ انتخابات ہی غلط اور دھاندلی زدہ ہیں۔ اب جب کہ تحریک انصاف نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ عمران خان آئندہ تاریخ پر الیکشن کمیشن کے روبرو پیش ہو جائیں گے جس کے لئے الیکشن کمیشن نے وارنٹ گرفتاری جاری کر رکھے ہیں انہیں احساس دلا دیا گیا ہے کہ الیکشن کمیشن کو عدالت عالیہ کے مساوی عدالتی اختیارات حاصل ہیں۔ اگر وہ مسلسل انکار پر کاربند رہے اور حاضر نہ ہوئے تو انہیں نہ صرف نااہل قرار دیا جا سکتا ہے بلکہ جیل کی ہوا کھانا بھی پڑ سکتی ہے جہاں من پسند ’’خوراک‘‘ نہیں ملتی یہی خوف شاید انہیں حاضری پر مائل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ بہتر ہو گا کہ وہ دہشت گردی کی عدالت میں بھی حاضر ہو جائیں جہاں سے وہ اشتہاری قرار دیئے جا چکے ہیں اور اب ان کی جائیداد ضبط کرنے کی قانونی کارروائی بھی شروع ہو چکی ہے۔ ان دنوں وہ لوگ بھی قسمت آزمائی کے لئے دھکے کھا رہے ہیں جنہوں نے اینٹ سے اینٹ بجا دینے کی دھمکی دی تھی اور پھر اس کے زیراثر ہی ملک سے بھاگ گئے تھے۔ یہ لوگ جنہیں ملک عزیز میں کرپشن کا معمار کہا جاتا ہے سبکدوش وزیراعظم کو متنبہ کر رہے ہیں کہ وہ اداروں سے ٹکرائو کی سوچ ترک کر دیں۔ یہ سیاست کی نیرنگی ہے کہ کون کیا کہہ رہا ہے اور کس سے کہہ رہا ہے۔ عجب مزاحیہ ماحول سیاست پر چھا کر رہ گیا ہے۔
تازہ ترین