• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حلف نامہ ،تبدیلی کے ذمہ دار کو سخت سزا ہوسکتی ہے

Todays Print

اسلام آباد (انصار عباسی) اب ذمہ دار کو سخت سزا دی جا سکتی ہے کیونکہ حکمران جماعت کی تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے کم از کم ایک ایسے فرد کو شناخت کرلیا گیا ہے۔ جس نے مبینہ طور پر الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت کاغذات نامزدگی میں ختم نبوت سے متعلق اعلامیے میں متنازع تبدیلی کا ڈرافٹ تیار کیا تھا۔تاہم اس کی کوئی تصدیق نہیں ہوئی ہے کہ آیا وہ شخص جس نے مبینہ طورپر متنازع تبدیلی کا مسودہ تیار کیا تھا، وہ ارادتاً کیا گیا تھا یا غیر ارادی طورپر کیا گیا تھا۔

باخبر ذرائع نے بتایا ہے کہ نواز شریف کی جانب سے قائم کردہ پاکستان مسلم لیگ ن کی تحقیقاتی کمیٹی نے تصدیق کی ہے کہ متنازع تبدیلی کا نوٹس نہ لینے میں دوسروں کی بھی بھول چوک شامل ہے۔ تاہم کم سے کم ایک شخص کی شناخت ہوگئی ہے جس نے اعلامیے میں متنازع تبدیلی کی تھی۔ اس سلسلے میں تحقیقاتی کمیٹی کے سربراہ سینیٹر راجا ظفر الحق جبکہ ارکان مین سینیٹر مشاہداللہ خان اور احسن اقبال شامل تھے۔ جس شخص کی شناخت ہوئی ہے اس کا نام سیکورٹی وجوہات کی بنا پر ظاہر نہیں کیا جارہا ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ معلوم نہیں ہے کہ اس مرد یا خاتون نے یہ کام دانستہ کیا تھا یا غیردانستگی میں ہوا تھا۔ تاہم اس بات کی تصدیق ہوگئی ہے کہ پارلیمنٹ نے انتخابی اصلاحات پر پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات میں متنازع تبدلی منظورکرلی تھی۔

کسی بھی رکن پارلیمنٹ نے (کسی بھی سیاسی جماعت کے) تبدیلی کا نوٹس نہیں لیا تھا اور نہ ہی انتخابی اصلاحات کی کمیٹی میں کسی نے حلف نامے کو محض اعلامیے سے تبدیل کرنے کے ایشو پر تبادلہ خیال کیا۔ تحقیقاتی کمیٹی کے مطابق وزیر قانون بھی تبدیل شدہ مسودے کا نوٹس لینے میں ناکام رہے تھے اور وہ انہوں نے انتخابی اصلاحات کمیٹی کے سامنے رکھ دیا تھا۔ کاغذات نامزدگی میں تبدیلی کا نوٹس پہلی مرتبہ اس وقت لیا گیا جب جے یو آئی ف کے سینیٹر حافظ حمدللہ نے سینیٹ میں اس وقت اس پر اعتراض کیا جب الیکشن بل 2017 ایوان بالا میں ووٹنگ کے لئے پیش کیا گیا۔

سینیٹر نے اعتراض کیا کہ حلف کی حلفیہ بیان کی زبان کو تبدیل کیا جارہا ہے اور اس لیے انہوں نے ترمیم پیش کی تاکہ اعلامیے کو حلف کے تحت تحفظ فراہم کیا جائے۔ تاہم سینیٹ نے اکثریت کی بنیاد پر ان کی ترمیم کو مسترد کردیا اور اسے منظور کرلیا جو انتخابی اصلاحات پر پارلیمانی کمیٹی نے تجویز کیا تھا۔ قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کے رکن قومی اسمبلی طارق اللہ نے ایک ترمیم پیش کی تھی تاکہ مجوزہ تبدیلی کا مقابلہ کیا جاس کے لیکن ان کی ترمیم کو بھی ایوان زیریں نے مسترد کر دیا تھا۔

ذرائع کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن کی تحقیقاتی کمیٹی نے نشاندہی کی تھی کہ ارکان پارلیمنٹ میں اپنی پارٹی وابستگی سے قطع نظر یہ ادارک موجود ہے کہ انہوں نے غلطی کی تھی جس کی وجہ اس وقت تمام کا الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 203 پر توجہ کا مرکوز ہونا تھا۔ جس کے نتیجے میں نواز شریف کا بطور پاکستان مسلم لیگ ن کے صدر کے طور پر دوبارہ انتخاب تھا۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی کمیٹی نے اگرچہ مولانا فضل الرحمن کے بیان کا حوالہ دیا ہے کہ متنازع قانون کی منظوری پارلیمنٹ کی اجتماعی ناکامی کا نتیجہ تھی تاہم کمیٹی نے ذمہ دار پائے جانے والوں کے خلاف سفارش کی ہے۔

یہاں یہ یاد دلایا جاتا ہے کہ انتہائی متنازع قانون کی منظوری کے چند روز کے اندر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں نے متفقہ طور پر الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کر کے ختم نبوت کے حوالے سے اصل حلف نامہ بحال کر دیا تھا۔

تازہ ترین