• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عمران کی دستاویزات نامکمل، ترین کے لیز پیپرز جعلی لگتے ہیں، سپریم کورٹ

اسلام آباد(نمائندہ جنگ، صباح نیوز) عدالت عظمیٰ نے پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان اور جنرل سیکرٹری جہانگیر ترین کی عوامی عہدہ کیلئے نااہلیت سے متعلق مقدمہ کی سماعت کے دوران عمران خان کی ایک لاکھ پائونڈ زکے منی ٹریل سے متعلق متفرق درخواست پر درخواست گزار حنیف عباسی سے جواب الجواب طلب کر لیا ہے۔جبکہ عمران خان کی دستاویزات کو نامکمل قرار دیا۔ چیف جسٹس میاںثاقب نثار نے جہانگیرترین کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ آپکے موکل کی جانب سے داخل کی گئی دستاویزات میں متضاد چیزیں ہیں، بظاہر لگتا ہے کہ یہ تمام دستاویزات جعلی ہیں، صرف لیز معاہدے سے حقائق واضح نہیں ہوئے، کسی دستاویز سے ثابت کریں کہ آپ ان زمینوں پر کا شتکاری کر رہے ہیں، ستاویزات سے فریب کا تاثر ابھرتا ہے، کیا آپ چاہتے ہیں تحقیقات کیلئے کمیشن بنایا جائے۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے عمران خان کے وکیل نعیم بخاری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ موقف تبدیل کرکے آپ نے نیا مقدمہ بناد یاہے، ہم چاہتے ہیںکہ آپ کے پاس اپنے دفاع میں جو کچھ بھی تھا پہلے دن ہی جمع کرا دیتے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس عمر عطا بندیال اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رکنی بنچ نے منگل کے روز کیس کی سماعت کی تو عمران خان کے وکیل نعیم بخاری نے موقف اختیار کیا کہ انہوں نے ایک لاکھ پائونڈز سے متعلق دستاویزات جمع کرا دی ہیں اور بینکوں کے ذریعے رقوم کی منتقلی کی رسیدیں بھی دستاویزات میں شامل ہیں۔ چیف جسٹس نے کہاکہ آپ کی جانب سے ریکارڈ ٹکڑوں میں آ رہا ہے، آپ کی جانب سے اتنی درخواستیں آئی ہیں کہ اب تو ان کا متن ہی یاد نہیں ہے۔ نعیم بخاری نے کہا کہ ایک لاکھ پائونڈز پر پاکستان میں ٹیکس کا نفاذ نہیں ہونا تھا، اب تک کے جوابات یادداشت اور کمزور دستاویز پر مبنی تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی جانب سے اب بھی مکمل دستاویزات مہیانہیں کی گئی ہیں، عمران کی دستاویزات نامکمل ہیں، دستاویزات کا تعلق کہیں نہ کہیں ٹوٹ جاتا ہے، ایسا ریکارڈ ابھی تک نہیں دیا گیا جس سے معلوم ہو کہ نیازی سروسز کے اکائونٹ میں رقم لندن فلیٹ سے متعلق مقدمہ بازی کیلئے رکھی گئی تھی۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ایک لاکھ پائونڈز کی رقم میں سے 27 ہزار پائونڈز کا پتاہی نہیں چل رہا، جس پر فاضل وکیل نےکہاکہ 26 مئی 2003 کو جمائمہ خان نے 93 ہزار پائونڈز عمران خان کو بھیجے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اس رقم کا آپ بنی گالا تعمیرات سے تعلق جوڑناچاہتے ہیں؟ یہ سب کچھ آپ کو ابتدامیںہی بتادیناچاہیے تھا،آ پکی جانب سے ایساریکارڈ نہیں دیاگیا ہے جس سے معلوم ہو کہ این ایس ایل اکائونٹ میں رقم مقدمہ بازی کیلئے رکھی گئی تھی۔ فاضل وکیل نے کہا کہ ایک لاکھ پائونڈز میں سے عمران خان نے پہلے40 اور پھر 42 ہزار پائونڈز وصول کیے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ان دستاویزات کی کریڈیبلٹی ہمیشہ چیلنج کی گئی ہے۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ تمام دستاویزات پہلے آجانی چاہیے تھی،کچھ صفحات سامنے نہیں ہیں جن سے 27ہزارپائونڈز کامعلوم ہو سکے۔ نعیم بخاری نے کہا کہ ایک پیسہ بھی ملک سے باہرجانے کاایشو نہیں،تمام رقم کی ٹرانز یکشن بینکوں کے ذریعے کی گئی ہے۔ انہوں نے اس درخوا ست پر درخواست گزار حنیف عباسی کو نوٹس جاری کرنے کی استدعا کی تو عدالت نے عمران خان کی درخواست پر درخواست گزار حنیف عباسی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے ان سے جواب طلب کر لیا۔ قبل ازیں جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے دلائل جاری رکھتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ لیز اراضی سے متعلق تمام ریکارڈ جمع کروا دیا ہے، جس میں اصل لیز کی دستاویزات، جمع بندی اورکراس چیک وغیرہ شامل ہیں، جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ آپ نے ابھی تک،مالیہ اور خسرہ بندی کا ریکارڈ جمع نہیں کروایا، فاضل وکیل نے کہا کہ18566ایکڑ زمین ایک سو پچاس کلو میٹر علاقے پر مشتمل رحیم یار خان اور راجن پور کے اضلاع میں واقع ہے، میرے موکل نے یہ زمین ٹھیکے پر مختلف خاندانوں کے سربراہوںسے حاصل کی تھی، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ جہانگیر ترین نے خسرہ گرداوری جمع نہیں کرائی ہے،ہم ایسی آبزرویشن نہیں دینا چاہتے جس سے آپ کا مقدمہ متاثر ہو، فاضل وکیل نے کہا کہ عدالت کو18566ایکڑاراضی کی دستاویزات دی ہیں، رحیم یارخان اورراجن پورکے علاقے سے متعلق یہ دستاویزات ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپکی دستاویزات میں خسرہ گرداوری شامل نہیں، صرف لیز معاہدے سے حقائق واضح نہیں ہوئے ہیں، کسی دستاویز سے ثابت کریں کہ آپ ان زمینوں پر کاشتکاری کررہے ہیں، کیاآپ چاہتے ہیں کہ ہم اس علاقے کے ریونیو افسران کوطلب کریں؟ یاعلاقے میں لیز پریکٹس کاجائزہ لینے کیلئے کمیشن تشکیل دیں،یہ غیرمعمولی چیز ہے کہ ادائیگی کراس چیک کے ذریعے ہورہی ہے، عام طورپرایسانہیں ہوتا؟فاضل وکیل نے کہا کہ عدالت اپنی تسلی کیلئے تحقیقات کا حکم دے سکتی ہے،لیز کے معاہدے خاندانوں کے بڑوں کے ساتھ کیے گئے تھے،آبیانہ اور بجلی کے اخراجات تو بتا دیئے ہیں لیکن اراضی پر ٹیکس جہانگیر ترین نہیں بلکہ اراضی کے اصل مالکان ادا کرتے ہیں اور مالکان لیز کا سرکاری اندراج کرنے کے حق میں نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کراس چیک کے علاوہ بھی آپکے پاس کوئی اور ثبوت ہے؟ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ یہ جو کراس چیکس آپ نے دیئے ہیں، لگتا ہے بطور کرشر آپ نے گنے کی خریداری کی ادائیگیاں کی ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ شوگر مل مالکان قرضہ دیتے وقت زمین کی دستاویزات اپنے پاس رکھتے ہیں، جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ بوگس ادائیگیوں کو عمومی طور پر زرعی آمدن میں ہی ظاہر کیا جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپکو اپنی ٹھیکے پر کاشتکاری کیلئے خسرہ گردواری عدالت میں پیش کرنا ہو گا، جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ عدالت تسلیم کرے یا نہ کرے کراس چیکس ہی لیز کی زمین پر کاشتکاری کے ثبوت ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ لیز معاہدے کی سطح پر بھی رجسٹرڈ نہیں، عمومی طور پر ادائیگی کراس چیکس سے نہیں ہو تی، جمع بندی میں کاشتکار کا نام جہانگیر ترین نہیں لکھا ہے،آپکو معلوم تھا کہ محکمہ مال کے ریکارڈ میں کوئی اندراج نہیں، آپ پہلے دن سے جانتے تھے کہ ایسی کوئی دستاویز نہیں جواس اراضی پر آپ کوکاشتکار ثابت کرے، جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ جو جانتاتھاپہلے ہی عدالت کوبتاچکا ہوں،گزارش ہے کہ عدالت پہلے میراموقف سنے،لیزمعاہدوں کے مطابق زمیندار خاندا نو ں کے سربراہوں کو ادائیگیاںکی گئی ہیں، درحقیقت یہ زمین 18566ایکڑ اراضی جہانگیرترین کے زیرکاشت ہے،آبیانہ بھی میں دیتاتھا،جس میں موضع اور میرے موکل کانام شامل ہوتاہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ لیزکامعاملہ محکمہ مال کے ریکارڈ میں کیوں نہیں، فاضل وکیل نے بتایا کہ مالکان نہیں چاہتے کہ لیز معاہدے ریکارڈ میں آئیں، چیف جسٹس نے کہا کہ اصل بات یہ ہے کہ آپ کے پاس کاشتکاری اورقبضہ کاکوئی سرکاری ریکارڈ نہیں ،فاضل وکیل نے کہا کہ سرکاری دستاویزات تو نہیں لیکن کچھ متعلقہ دستاویزات ہیں،21کروڑ لیز کی مد میں اداکیے ہیں، جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ شوگرمل کے مالک ہیں،ممکن ہے کہ یہ چیک کرشنگ کے دوران گنے کی ادائیگی کے ہوں، فاضل وکیل نے کہا کہ اگرکراس چیکس نہ ہوتے تومعاملے کی انکوائری ہوسکتی تھی،یہ الگ سوال ہے کہ عدالت کراس چیک کودرست مانتی ہے کہ نہیں؟جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ کیاآپ نقشے پر اراضی ظاہرکرسکتے ہیں ؟ تو فاضل وکیل نے کہا کہ بالکل نقشہ مہیا کیا جاسکتا ہے، میرا موقف یہ نہیں کہ کوئی دستاویز نہیں،کرشنگ کیلئےاداکی گئی رقم جے ڈی ڈبلیو شوگرمل کےاکائونٹ سے دی گئی ہے،چیف جسٹس نے کہا کہ جمع بندی توآپ کوکس طرح فائدہ نہیں دے گی ؟ جسٹس فیصل عرب نے کہا کہ شوگر ملز مالکان قرض دیتے وقت زمین کی دستاو یزا ت اپنے پاس رکھتے ہیں، عموماً بوگس ادائیگیوں کوزرعی آمدن کو ظاہر کیاجاتاہے، چیف جسٹس نے کہا کہ اپنی کاشتکاری ثابت کرنے کیلئے خسرہ گرداوری لے آئیں، کیاحاجی خان اور اللہ یار واقعی آپ کے ڈرائیورلوگ ہیں،جس پر فاضل وکیل نے کہا کہ معلو ما ت لے کربتائوں گا،کہ ان کی ملازمت کس طرز کی تھی،ا نہوںنے کہا کہ درخواست گزار کے مطابق میرے موکل جہا نگیرترین نے ای سی پی میں اپناجرم قبول کیاہے، ایس ای سی پی قوانین کے تحت ان سائیڈر ٹریڈنگ غیرقانونی ہے، 2005میں ایس ای سی پی کاسیکشن 15ای نہیں تھا،سیکشن 15ای قانون سے متصادم ہے،سیکشن 15ای کو 2008میں شامل کیاگیاتھا۔چیف جسٹس نے کہا ہم آپکے موکل کی ایمانداری کا جائزہ لے رہے ہیں اور آپ نااہلی کے مقدمے میں قانون کو چیلنج کر رہے ہیں، جس پر فاضل وکیل کا کہنا تھا کسی عوامی نمائندے کی عوامی عہدے کیلئے نااہلیت مستقل تصور کی جاتی ہے اور یہ زندگی بھر کا داغ ہوتا ہے، فاضل وکیل کے دلائل جاری تھے کہ سماعت آج بدھ تک ملتوی کردی گئی۔
تازہ ترین