• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پی ٹی آئی نے مسودہ مسترد کردیا، قومی احتساب کمیشن پر پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس بغیر نتیجہ ختم

اسلام آباد( طاہر خلیل) پی ٹی آئی نے مسودہ مسترد کردیا، قومی احتساب کمیشن پر پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس بغیر نتیجہ ختم ہوگیا، وزیر قانون نے کہا کہ کمیشن کے اطلاق پر اتفاق نہیں ہوسکا، حکومت نے ججز، جرنیلوں کا کمیشن سے احتساب سے کرانے کی مخالفت کی ہے،تفصیلات کے مطابقوفاقی وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے احتساب کے نئے نظام کےلئے قائم پارلیمانی کمیٹی کو بتایا ہے کہ حکومت نے ججز اور جرنیلوں کا مجوزہ قومی احتساب کمیشن سے احتساب کرانے کی تجویز کی مخالفت کی ہے۔ نیب کی جگہ مجوزہ مسودے میں ججز اور جرنیلوں کااحتساب کمیشن سے احتساب کرانے کی تجویز شامل تھی۔ حالیہ ہفتے میں میاں شہباز شریف نے بھی اس تجویز کی مخالفت کی تھی اور کہا تھا کہ ججز اور جرنیلوں کے احتساب کے لئے ان کے اپنے اداروں میں احتسابی نظام موجود اس لئے احتساب کمیشن سے ان کا احتساب کرانے کی ضرورت نہیں، ایک اور اہم پیشرفت یہ ہوئی کہ تحریک انصاف نےنیب کی جگہ قومی احتساب کمیشن قائم کرنے سے متعلق نئے قانون کے مسودے کو مسترد کردیا جس وجہ سے پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس کسی نتیجے کے بغیر ختم ہوگیا۔ پارلیمانی کمیٹی کا اجلاس وزیر قانون زاہد حامد کی صدارت میں ہوا جس میں پیپلز پارٹی کے علاوہ تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں کے نمائندے بھی شریک ہوئے تاہم تحریک انصاف کی جانب سے ان کی چیف وہپ شیریں مزاری نے نئے احتساب کمیشن کا مسودہ مسترد کر دیا اور تحریک انصاف نے تحریری طور پر اپنے اعتراضات پارلیمانی کمیٹی میں پیش کردیے ،شیریں مزاری نے احتساب کمیشن کے مجوزہ قانون پر 8 نکاتی اعتراضات زاہد حامد کے حوالے کردیے ، تحریک انصاف نے اعتراض اٹھایا کہ حکومتی تجویز کردہ مسودہ احتساب کے عمل میں رکاوٹ کے لئے تیار کیا گیااحتساب کا عمل کب سے شروع ہوگا تعین ہی نہیں کیا گیا، مجوزہ تحقیقاتی ایجنسی کو چیئرمین احتساب کمیشن کے ماتحت رکھا گیا ہے، کرپشن سے لوٹی رقم واپس کرنے پر سزا کم کرکے 7 سال کرنا قبول نہیں، احتساب کے مجوزہ قانون میں بھی رقم کی رضاکارانہ واپسی کو برقرار رکھنا قبول نہیں، پی ٹی آئی نے ٹرائل مکمل نہ ہونے کی صورت میں ملزم کو ایک سال بعد ضمانت پر رہا کرنے پر بھی اعتراض اٹھایا جبکہ انہوں نے کرپشن مقدمات کی سماعت کے لئے نیب عدالتیں برقرار رکھنے کا مطالبہ بھی کر دیا اس کے علاوہ پی ٹی آئی نے چیئرمین احتساب کمیشن کو ملزم کو معافی دینے کے اختیار پر بھی اعتراض کردیا۔ اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں وفاقی وزیر قانون زاہدحامد نے کہا کہ قومی احتساب کمیشن کے اطلاق پر ابھی اتفاق نہیں ہوسکا،نئے ادارے کا اطلاق صرف وفاقی ملازمین پر ہو یہ تجویز آئی ہے تاہم تین چار معاملات پر اتفاق رائے نہیں ہوسکا،احتساب قوانین کو بالکل بدل دیا ہے یہ تاثر غلط ہے آفس آف پبلک ہولڈر،احتساب کا وقت،کرپشن،کرپٹ پریکٹسز پر اتفاق نہیں ہوسکا،ٹرائل پر اتفاق نہیں ہوا مزید بات ہوگی ٹرائل کا طریقہ کار تبدیل نہیں کیا،ٹرائل کے طریقہ کار پر کمیٹی بنا دی ہے،جس میں انوشہ رحمان،محسن رانجھا،ایس اے اقبال قادری شامل ہیں،جبکہ زاہد حامد نے کہا کہ عوامی عہدہ رکھنے والوں کے احتساب کی ابھی تعریف کرنی ہے حکومت نے ججز،جرنیلوں کا قومی احتساب کمیشن سے احتساب سے کرانے کی مخالفت کی ہے پی ٹی آئی نے کمیٹی کی پچھلی کاروائی پر اعتراض کیا ہے،شیریں مزاری نے کچھ تجاویز کمیٹی کو دی ہیں،پی ٹی آئی نے نیب کی جگہ قومی احتساب کمیشن پر اعتراض کیا ہے جبکہ نیب کی جگہ قومی احتساب کمیشن (نیک) پر پہلے اتفاق رائے ہوا تھا، اور اب احتساب قوانین پر مزید بحث 24 اکتوبر کو ہوگی۔صباح نیوزکے مطابق پارلیمانی کمیٹی برائے احتساب قانون کے 14ویں اجلاس میں بھی بلاتفریق و بلا امتیاز احتساب کے لیے عوامی عہدیداروں کا تعین نہ ہو سکا،اپوزیشن کی بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی اجلاس سے غیر حاضر ہو گئی۔نیب ریفرنسر کی تیاری اور ٹرائل کے طریقہ کار کے جائزہ کے لیے 3 رکنی سب کمیٹی قائم کر دی گئی۔پاکستان تحریک انصاف قومی احتساب کمیشن کے قیام کے اتفاق رائے سے پیچھے ہٹ گئی پارلیمانی رہنماء شاہ محمود قریشی کی جگہ ڈاکٹر شریں مزاری کو باقاعدہ طور پر پارلیمانی کمیٹی میں نامزد کر دیا گیا ہے تحریک انصاف نے نیب آرڈیننس 1999ء کو تحلیل کرنے کی مخالفت کرتے ہوئے نیب آرڈیننس میں 8 ترامیم تجویز پیش کر دی جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت نے مجوزہ قومی احتساب کمیشن کے وسیع اختیار کی مخالفت کر دی ہے۔ دوسرے بڑے صوبے نے نئے احتساب قانون کے صرف وفاقی ملازمین پر اطلاق کی تجویز دے دی گئی۔منگل کو پارلیمانی کمیٹی برائے احتساب و قانون کا اجلاس چیئرمین کمیٹی وزیر قانون و انصاف زاہد حامد کی صدارت میں پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔ احتساب قانون کے اطلاق و دائرہ کار کے معاملے پر بھی پارلیمانی کمیٹی تاحال کسی نیتجہ پر نہ پہنچ سکی ہے۔ججز اور جرنیلوں کو احتساب کمیشن کے دائرہ کار میں لانے کی سب سے بڑی حامی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے اراکین سینیٹر فرحت اﷲ بابر، سینیٹر تاج حیدر، سید نوید قمر اور دیگر اجلاس سے غیر حاضر تھے، اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے وزیر قانون و انصاف زاہد حامد نے کہا کہ شروع دن ہی سے تمام شقون کا جائزہ لے رہے تھے اور تمام فیصلے اتفاق رائے سے کیے گئے یہ منٹس کا حصہ ہیں اور ہراجلاس میں ان کی منظور ی بھی لی جاتی ہے تاکہ منٹس پر کسی کو اعتراض ہے تو بروقت اس کی نشاندہی ہوجائے۔احتساب قانون کے کافی سارے گرائونڈ کو کور کر لیا ہے قومی احتساب کمیشن کے قیام کا بھی اتفاق رائے سے فیصلہ ہوا تھا میٹنگ کے منٹس موجود ہیں اب تحریک انصاف نے اس اتفاق رائے کی مخالفت کر دی اور موقف اختیار کیا ہے کہ قومی احتساب بیورو کو برقرار رکھا جائے۔
تازہ ترین