• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاک افغان سرحد پر امریکی ڈرون حملوں کا مسلسل دوسرے روز بھی جاری رہنا، جن میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان،جماعت الاحرار اور حقانی نیٹ ورک کے درجنوں جنگجوؤں کی ہلاکت کے علاوہ جماعت الاحرار کے سربراہ خالد خراسانی کے شدید زخمی ہونے کی بھی اطلاعات ہیں، واضح طور پر صدر ٹرمپ کی نئی افغان پالیسی پر عملدرآمد شروع ہوجانے کا مظہر ہے۔ ڈھائی ماہ پہلے اس پالیسی کا اعلان کرتے وقت امریکی صدر نے افغان مسئلے کے حل کے لیے بات چیت کے ذریعے کسی پرامن راستے کی تلاش میں کسی دلچسپی کے اظہار کے بجائے ازسرنو طاقت کے بھرپور استعمال کا ارادہ ظاہر کیا تھا ۔تاہم ان کے اس موقف کو خود ان کے ملک میں بھی اور عالمی سطح پر بھی بڑے پیمانے پر ہدف تنقید بنایا گیا جبکہ حکومت پاکستان نے بھی اس رائے کا اظہار کیا کہ محض طاقت کے استعمال سے افغانستان میں جس طرح پچھلے سولہ برسوں میں امن کے قیام کے کوئی امکانات روشن نہیں ہوئے اسی طرح آئندہ بھی ایسا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ پاکستان کی عسکری قیادت اور افغان حکمرانوں کے درمیان حالیہ بات چیت میں بھی اس امر پر اتفاق ہوا کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائی اور اس کے لیے باہمی تعاون بڑھانے کے ساتھ ساتھ مذاکراتی عمل کی بحالی کے ذریعے افغان مسئلے کے سیاسی حل کی تلاش کی کوششیں بھی از سرنو شروع کی جائیں گی۔ مسقط میں چار ملکی گروپ کا حالیہ اجلاس اسی سوچ کا نتیجہ تھا لیکن اس کے فوراً بعد پاک افغان سرحد پر دو دنوں میں پے درپے متعدد ڈرون حملے بتاتے ہیںکم از کم کچھ مدت کے لیے دہشت گرد تنظیموں کی کمر توڑنے کی خاطر ڈرون حملوں کے ذریعے بھرپور جارحانہ کارروائی کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ پاکستان کے لیے ان ڈرون حملوں کا ایک اطمینان بخش پہلو تو یہ ہے کہ افواج پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ اور پاکستانی وزیر خارجہ دونوں کے مطابق یہ حملے پاکستان کی فضائی حدود سے باہر کیے جارہے ہیں اور پاکستان کو ان کی پیشگی اطلاع بھی دی جارہی ہے جبکہ ماضی میں اس کے برعکس رویہ اپنا کر ہماری قومی خود مختاری کو پامال کیا جاتا رہا ہے۔پاکستان کے نقطہ نظر سے امریکہ کی ان تازہ کارروائیوں کا دوسرا مثبت پہلو یہ ہے کہ ان کے ذریعے پاک افغان سرحد پر دہشت گرد تنظیموں کے محفوظ ٹھکانوں کو نشانہ بنا کر پاکستان کے اندر ان تنظیموں کی جانب سے دہشت گرد کارروائیوں کے امکانات کا سدباب ہورہا ہے جس کی ضرورت کا اظہار پاکستان بار بار افغان حکومت سے کرتا رہا ہے۔ ان تنظیموں میں سے بعض پاکستان کے اندر بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے اہداف کی تکمیل کے لیے دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی اور عسکری قیادت دونوں کی جانب سے امریکی ڈرون حملوں کے اس تازہ سلسلے کا خیرمقدم کیا گیا ہے تاہم امریکہ کی جانب سے اس میں یہ احتیاط لازماً کی جانی چاہیے کہ ان کا دائرہ پاکستانی حدود کے اندر تک وسیع کرکے پاکستان کی قومی خودمختاری کو پامال کرنے سے مکمل گریز کیا جائے۔ پاکستان کے اندر کسی کارروائی کی ضرورت ہو تو ہماری سیاسی اور عسکری قیادت کو اس کے بارے میں معلومات مہیا کی جائیں تاکہ افواج پاکستان خود کارروائی کرسکیں جیسا کہ ابھی چند روز پہلے کینیڈا کے ایک خاندان کو طالبان کی قید سے رہائی دلانے کے لیے کیا جاچکا ہے۔ٹرمپ انتظامیہ نے ان امور کا لحاظ رکھا اور پاکستان کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے خطے سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پاکستان کی کوششوں میں تعاون کیا تو یقینا مثبت نتائج سامنے آئیں گے۔ لیکن سولہ سال کے تجربے کی بنیاد پر یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ محض طاقت کے استعمال سے خطے میں امن قائم نہیں ہوسکتا، غرنی میں گزشتہ روز ہی کیا جانے والا طالبان کا حملہ جس میںپولیس چیف سمیت72 افراد ہلاک اور دو سو سے زیادہ زخمی ہوئے اس رائے کی صداقت کا واضح ثبوت ہے لہٰذا طاقت کے استعمال کے ساتھ ساتھ پوری سنجیدگی سے سیاسی حل کی کوششوں کا جاری رکھا جانا بھی ضروری ہے۔

تازہ ترین