• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ چند ماہ سے پاکستان عدم استحکام کا شکا ر ہے۔اداروں کے درمیان غلط فہمیاں بڑھتی جارہی ہیں۔نوازشریف کی نااہلی کے بعد حکمران جماعت اور راولپنڈی کے درمیان پیدا ہونے والے خلا میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔سابق وزیراعظم نوازشریف کو لڑنے کا مشورہ دینے والے اڑان بھرنے کو تیار بیٹھے ہیں۔اداروں میں ٹکراؤ کی پالیسی قائم رہی تو مارچ سے پہلے ہی شاہد خاقان حکومت کا شیرازہ بکھر جائے گا۔حالات بند گلی میں داخل ہوچکے ہیں۔اگر ٹکراؤ کی پالیسی کو نہ روکا گیا تو وہ صورتحال دور نہیں جب آگے کنواں ہوگا اور پیچھے کھائی۔سویلین بالادستی اور قانون کی حکمرانی کے حوالے سے اس خاکسار کے نظریات سے قارئین بخوبی آگاہ ہیں۔مگر آندھی تیز ہو تو بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں ہوتا۔مسلم لیگ ن کے سربراہ نوازشریف کو مدبرانہ سوچ کا مظاہرہ کرتے ہوئے بڑا فیصلہ کرنا چاہئے۔حالیہ کشیدگی کو طویل کرنا کسی بھی صورت مسلم لیگ ن کے فائدے میں نہیں ہے۔اسٹیبلشمنٹ کے داؤ پیچ سے نوازشریف بخوبی واقف ہیں۔اس لئے ٹکراؤ کی پالیسی کو ترک کرکے عام انتخابات 2018کے بارے میں سوچنا چاہئے۔نوازشریف کی رائے ہے کہ وہ مزید کتنا برداشت کریں؟ کیونکہ جتنے ضبط کا مظاہرہ انہوں نے گزشتہ چار سالوں کے دوران کیا ہے ،سیاسی زندگی میں پہلے کبھی نہیں کیا۔راولپنڈی کے ساتھ بہتر تعلقات قائم رکھنے کے حوالے سے انہوںنے جو کچھ برداشت کیا۔ان واقعات کی نوازشریف کے پاس ایک لمبی فہرست ہے۔لیکن تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ نوازشریف درست فرماتے ہیں کہ انہوں نے اقتدار کی تیسری باری میں بہت کچھ برداشت کیا ہے۔ایسی باتوں پر بھی سمجھوتہ کیا ہے۔جن پر پہلے کبھی نہیں کیا۔مگر میرا نوازشریف صاحب سے سوال ہے کہ پہلے آپ کبھی اتنے مضبوط بھی نہیں ہوئے جتنا تیسری مرتبہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے کے بعد ہوئے ہیں۔اس لئے اس ملک میں مضبوط عوامی لیڈر کو بہت کچھ برداشت کرنا پڑتا ہے۔کیونکہ مضبوط جماعت اور مقبول سیاسی لیڈر کسی کو قبول نہیں ہوتا۔نوازشریف کے طریقہ کار سے اختلاف کیا جاسکتا ہے مگر نوازشریف کی سوچ سے اختلاف کرنا مناسب نہیں ہوگا۔نوازشریف جس سویلین بالادستی کا علم اٹھائے ہوئے ہیں۔اس سے عمران خان اور آصف زرداری نے بھی مستفید ہونا ہے ۔آج نوازشریف ہے ،کل اس کے ثمرات سے آپ فائدہ اٹھائیں گے۔بس ہر سیاسی رہنما کے سوچنے کا انداز مختلف ہے،وگرنہ فائدہ تو سب کا یکساں ہے۔
آج ملک میں مسلم لیگ ن جن حالات کا سامنا کررہی ہے۔اس کی وجہ عوامی مقبولیت اور مضبوط اقتدار ہے۔تمام اداروں کو نظر آرہا تھا کہ نوازشریف کا اقتدار یونہی چلتا رہا تو آئندہ الیکشن بھی مسلم لیگ ن لے اُڑے گی۔کسی ایک سیاسی جماعت کی اکلوتی مضبوطی سے ملک کے بڑے اسٹیک ہولڈر خوف زدہ ہوجاتے ہیں۔یہ آج سے نہیں بلکہ گزشتہ 70سالوں سے ہورہا ہے۔اس مرتبہ آپکی Legacyبن رہی تھی۔اسی Legacyکی خاطر مزید برداشت کرنا تھا۔کھیل کے اختتام پر فاتح آپ نے ہونا تھا۔اس لئے حکمت اور بات چیت بھی آپکو جاری رکھنا تھی۔آج کچھ ناعاقبت اندیش مشیران کے مشوروں نے سب کچھ تباہ کرکے رکھ دیا۔بطور وزیراعظم آپ ملک کے سب سے بڑے اسٹیک ہولڈر تھے۔لڑائی میں سب سے زیادہ نقصان بڑے اسٹیک ہولڈر کا ہوتا ہے،جو بہرحال آپکا ہوا۔آپ کے پاس مقبولیت ہے اور ان کے پاس طاقت ہے۔مقبولیت ہمیشہ طاقت سے ہار جاتی ہے۔ماضی قریب کی مثالیں اٹھاکر دیکھ لیں۔طاقت نے تو پیسے کو روندا ہے۔اس لئے طاقت سے ٹکرانے کا نقصان بہت خوفناک ہوتا ہے۔مسلم لیگ ن کے سربراہ کو ٹکرانے سے گریز کرنا چاہئے۔سویلین بالادستی اور 20کروڑ عوام کے مینڈیٹ کے بعد جس طاقت کے آپ طلبگار ہیں۔اسے پانے کے لئے کم ازکم اپنی جماعت کی مسلسل چار حکومتیں تو دیں۔اقتدار اورعہدے کے لالچی مشیران نے ایسے سبز باغ دکھائے کہ اچھی بھلی Legacyتبا ہ کرکے رکھ دی۔اگر آپ مزید14دن وزیراعظم رہ جاتے تو پاکستان کے سب سے طویل اقتدار پر براجمان رہنے والے وزیراعظم ہوتے۔لیکن ڈٹ جانے کا مشورہ دینے والوں نے تخت سے تختہ کردیا۔صرف چند ملاقاتوں سے مسائل کا حل نکل سکتا تھا۔آج ٹوئٹ کی واپسی کا کوئی تذکرہ نہیں کررہا۔اس وقت کہا جاتا تھا کہ پہلی مرتبہ سویلین بالادستی کو تسلیم کیا گیا ہے اور اس ٹوئٹ واپسی کے اثرات برسوں محسوس کئے جائیں گے۔برسوں تو کیا چند ہفتوں بعد ہونے والی نااہلی کو ہی ہم برداشت کررہے ہیں۔مسلم لیگ ن کے دوستوں کی بھول ہے کہ اداروں سے تناؤ کے باوجود 2018میں باآسانی مینڈیٹ مل جائے گا۔یہ خاکسار چار درجن سے زائد ارکان اسمبلی کو ذاتی طور پر جانتا ہے۔جن کی رائے ہے کہ فنڈز مل چکے ہیں۔بس ٹینڈر کا انتظار کررہے ہیں۔اگر ٹکراؤ کی پالیسی قائم رہی تو جلد اڑان بھر دیں گے۔ایسے بھی بہت سے دوستوں کو جانتا ہوں کہ جن کو صرف فون کالز کا انتظار ہے اور وہ پریشان ہیں کہ ہمیں کیوں نہیں کال کی گئی۔اس لئے پارٹی اور حکومت کا شیرازہ بکھرنے سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ ٹکراؤ کی پالیسی کو بھول جائیں اور حکمت سے معاملات حل کریں۔قومی اخبارات میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کا بیان پڑھا،جس میں انہوں نے واضح موقف اختیار کیا ہوا تھا کہ ہمیں اداروں سے ٹکراؤ سے گریز کرنا چاہئے۔مسلم لیگ ن میں شہباز شریف کی رائے کو اس لئے اہمیت دے رہا ہوں کہ جو آخری شخص نوازشریف کے ساتھ کھڑا ہوگا وہ شہباز شریف ہونگے۔بھائی سے ہٹ کر بھی شہباز شریف کی وفاداری کے معیار منفرد ہیں۔اس لئے جو ہر حال میں آپکے ساتھ کھڑا رہے مگر آپکی رائے سے اختلاف کرے تو اس کی بات کو وزن ضرور دینا چاہئے۔مجھے علم ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں کے دوران وزیراعلیٰ پنجاب کو جس قسم کے پیغامات بھیجے گئے۔مسلم لیگ ن کا اور کوئی بھی رہنما ہوتاقبول کرلیتا ۔مگر اس نے جن سخت الفاظ کے ساتھ ہر چیز کو ٹھکرایا۔یہاں بیان کرنا مناسب نہیں ہے۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ شہباز شریف کی ٹکراؤ مخالف رائے اپنی جگہ موجود ہے۔جس کا اظہار وہ برملا کررہے ہیں۔جسے حمزہ شہباز نے کہا ہے یہ سب پاکستانیوں کے دلوں کی آواز ہے۔ہر محب وطن پاکستانی کو اپنی فوج سے پیار ہے۔اختلاف صرف چند پالیسیوں سے ہوسکتا ہے۔یہ آٹھ لاکھ جوان اپنا آج ہمارے کل کے لئے قربان کررہے ہیں۔پور ی قوم کو ان پر فخر ہے۔ آج ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم لیگ ن کے قائد کسی اور نہیں تو صرف اپنے بھائی کے مشوروں پر من و عن وعمل کرلیں تو مسلم لیگ ن کی کشتی بھنور سے نکل جائے گی۔

تازہ ترین