• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سر سید ہمارے پیرو مرشد ہیں ابھی 17اکتوبر کو ہم نے اُن کا دوصد سالہ یوم ولادت منایا ہے۔ اس مناسبت سے آج کا کالم اُن کے نام بنتا تھا لیکن بعض ہنگامی ایشوز ایسے ہوتے ہیں کہ اگر بروقت اُن پر خامہ فرسائی نہ کی جائے تو مابعد وہ بے وقت کی راگنی بن کر رہ جاتے ہیں۔ فی الوقت اُن میں سے ایک وزیراعظم نواز شریف کی فیملی سیاست ہے جو کسی وقت بھی خطرناک موڑ مڑ سکتی ہے۔ ان کی قیادت و سیاست کو فیملی سیاست کا غیر ذمہ دارانہ رویہ پل بھر میں بھسم کر سکتا ہے ۔ جس طرح پی پی کچھ ایسے ہی فیملی رویوں بالخصوص قیادت کے بحران کی وجہ سے فارغ ہو چکی ہے۔ رہ گئی پی ٹی آئی وہ ماشاء اللہ پہلے ہی بے جڑ کا بظاہر بڑا درخت ہے اسے گرنے کے لیے زیادہ بڑے طوفان کی ضرورت نہیں ہے۔ اگلے الیکشن کے بعد اس کی ہیجانی سیاست کا خاتمہ دیوارِ شہر پر ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔ ایسے میں پارلیمنٹ کتنی کمزور ہو گی اور ادارہ جاتی مناپلی کتنی بجلیاں گرائے گی ابھی سے ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔
ہمیں اس اظہار میں کوئی کلام نہیں کہ نواز شریف ہماری موجودہ جمہوریت و سیاست کی نہ صرف یہ کہ چٹان ہیں بلکہ وطنِ عزیز میں آمرانہ سوچ کے سامنے اصل دیوار ہیں۔ یہ دیوار بیرونی سازشوں کو تو جیسے تیسے سہہ گئی ہے البتہ اندرونی خلفشار اسے اندر ہی اندر کھوکھلا کر سکتا ہے۔ گھریلو مہم جوئی بڑی بڑی سلطنتوں کو لے ڈوبتی رہی ہے ان بیچاروں کی کیا حیثیت ہے۔ فیشن کے طور پر یہ طرزِ اظہار بڑا خوبصورت ہے کہ خاندانی سیاست نہیں ہونی چاہیے قطعاً نہیں ہونی چاہیے لیکن کیا ہمارے زمینی حقائق اس کی مطابقت میں ہیں۔ جب ہماری مقبول سیاسی پارٹیوں کے خمیر ہی شخصیات سے اٹھتے یا تیار ہوتے ہیں تو پھر شخصی و خاندانی سیادت سے انکار کیسے کیا جا سکتا ہے یہاں اتاترک کوئی بھی نہیں ہے اور نہ قوم ایسے کسی بڑے وژن کو قبول کرنے کے لیے ہنوز آمادہ و تیار ہے۔ جو کچھ فی الوقت میسر و ممکن ہے اس کے مطابق مخصوص ڈربے کے اندر رہ کر ہی بات کی جا سکتی ہے۔
نواز شریف کی قیادت کو قبول کرنے والے لوگ ایک ذہن اور ایک سوچ کے حامل نہیں ہیں۔ بہت سے تو وہ ہیں جو محض اپنے مخصوص مفادات کی خاطر ان کی حمایت میں رطب اللسان ہیں۔ جونہی ان کے مفادات پر زد پڑے گی یہ وہاں کھڑے دکھائی دیں گے جہاں ان کی مطلب براری ہو سکے گی۔ دوسرے وہ لوگ ہیں جن کی سیاست نوازشریف کی سیاسی کامیابی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ بلاشبہ ایسے لوگوں کی بھی کمی نہیں ہے جو نواز شریف کو قومی تعمیر و ترقی کا سمبل خیال کرتے ہوئے اس نوع کے الفاظ بولتے سنائی دیتے ہیں کہ اگر نواز شریف نے ذاتی فائدے لیے ہیں تو ملک و قوم کے مفاد میں کام بھی اسی نے کیے ہیں۔ اگر ملک کی ترقی پر کسی نے کچھ لگایا ہے تو وہ نواز شریف ہے یا اس کا بھائی شہباز شریف، نواز شریف نے اپنے حمایتیوں کا ایک اچھا خاصا طبقہ جمہوریت کیلئے اپنی لگن بالخصوص اپنے اسٹیبلشمنٹ مخالف رویے سے پیدا کیا ہے۔ انہوں نے اپنے روایتی فکر کے نظریاتی حلیفوں کو کھوئے بغیر انقلابی اذہان کے لبرل طبقات کی ہمدردی حاصل کی ہے تو یہ اُن کے شعوری و ذہنی ارتقاء، حقائق شناسی اور جرات اظہار سے ممکن ہوئی ہے۔ خطے میں امن و سلامتی کے نعرے سے اگر وہ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈال کر ڈنگ کھا رہے ہیں تو بہت سے جانثار پروانے بھی انہیں اسی سوچ کی برکت سے میسر آئے ہیں۔
وطنِ عزیز میں بڑھتی ہوئی جنونیت کو قابو کرنے کے لیے نواز شریف کے سب سے بڑے جرات مندانہ کارنامے کو جس شخص نے اپنی حماقت سے سیاہ حرکت میں بدلنے کی کوشش کی ہے اگر وہ یونہی اٹھکیلیاں کرتا رہا تو کوئی اور ڈوبے نہ ڈوبے منجدھار میں گھری کشتی ضرور ڈوبے گی۔ اولاد سے محبت ایک فطری جذبہ ہے لیکن یہ مثبت جذبہ اگر گھر کی چار دیواری تک چھایا رہے تو ایک لیڈر کے لیے بہتر ہوتا ہے کیونکہ لیڈر وہ ہوتا ہے جو اپنی قوم کے لیے یہی پدرانہ جذبات رکھتا ہو۔ وطن کے ایک ایک بچے اور بچی کو یہ احساس و یقین دلائے کہ وہ ان کے لیے مائی باپ کی طرح ہے بصورت دیگر وہ شخص منصب قیادت کا روادار نہیں رہتا۔ اب تک روا رکھی جانے والی بے احتیاطی آپ کی قیادت کو خاصا نقصان پہنچا چکی ہے اب بھی وقت ہے کہ آپ بڑے پن کا مظاہرہ کریں۔ ایک کامیاب مسلمان حکمران کہا کرتا تھا کہ میں نے جس کو جہاں رکھنا ہوتا ہے اُسے وہیں رکھتا ہوں وہ زیادہ قریب آئے یا دور جائے میں اپنی جگہ تبدیل کر کے بھی اس فاصلے کو بڑھنے یا گھٹنے نہیں دیتا لیکن اولاد کی محبت میں اس دانا حکمران نے وہ داغ لیا کہ صدیوں بعد بھی اس کا چہرہ دھل نہیں سکا۔
زمینی حقائق اور مجبوریوں کا قطعی احساس ہونا چاہئے لیکن حکمت اور حکمت عملی کے تقاضے بھی ملحوظِ خاطر رہنے چاہئیں۔ کسی پر عنایت کر کے واپس لینے سے بھیانک اور نقصان دہ بات شاید ہی کوئی ہو۔ اداروں سے آپ کی محبت بجا لیکن پارلیمنٹ اور اس کی منتخب قیادت کی بھی اس ملک میں کوئی توقیر ہے یا نہیں؟ اظہارِ الفت سے پہلے اتنا تو دیکھ لیں کہ کون کس پر اور کیوں حملہ آور ہوا ہے؟ کم از کم اس مرتبہ تو کہیں مزاحمتی سوچ سرے سے تھی بھی نہیں۔ مت بھولیں آپ کی یہ ساری آؤبھگت اس پاپولر لیڈر اور اس کے وچاروں پر ایستادہ ہے۔ جس روز یہ شاخ ٹوٹی سارا گھروندا نیچے آ جائے گا۔ اداروں سے مزاحمت کی سوچ بلاشبہ نہیں ہونی چاہئے لیکن آئین، پارلیمنٹ اور جمہوریت کا وقار بھی پیشِ نظر رہنا چاہئے۔ عوامی امنگوں کے ترجمان ادارے کی تذلیل تو مفاہمت کی قیمت نہیں ہے معاملات ضرور حل کریں بارہا لچک بھی دکھانی پڑتی ہے ضرور دکھائیں لیکن ایک وقار اور توازن کے ساتھ۔ بصورت دیگر اگر آپ روایتی مفادات کی خاطر کاریگری سے اوپر کے معاملات نمٹا بھی لیتے ہیں لیکن نچلی سطح پر عوام کا اعتماد کھو بیٹھتے ہیں یا تاریخ میں موقع پرست سیاستدان لکھے جاتے ہیں تو کیا فائدہ ایسے اقتدار کا۔ کم از کم اپنی دونوں حریف جماعتوں کے طرزِ عمل سے عبرت حاصل کریں اور عوام سے اپنے اعتماد کو ٹوٹنے نہ دیں۔
کسے نہیں ہے تمنائے سروری لیکن
خودی کی موت ہو جس میں وہ سروری کیا ہے

تازہ ترین