• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غصے کی جگہ اب مجھے شرمندگی ہونے لگی تھی اور اگر غصہ آ بھی رہا تھا تو مجھے اس ٹیکسی ڈرائیور پر نہیں بلکہ خود پر آرہا تھا کہ میں نے اپنی رائے قائم کرنے میں تھوڑی جلدی کی۔ اس موقع پر مجھے بے اختیار میرا بچپن کا دوست عاقل سجاد یاد آگیا، جو آنکھوں کی روشنی سے محروم تھا۔ میر ے بہت سارے دوست اس کو اہمیت نہیں دیتے تھے۔ عا قل مجھ سے وہ عموماً کھل کے بات کرتا تھا۔ اس کی باتوں میں کبھی قدرت اور نہ ہی اپنے دوستوں کے خلاف کوئی شکایت ہو تی ۔وہ اب جاگتے بھی اپنی بند آنکھوں کے پیچھے روشنی اور خواب کے بڑے بڑے دیئے جلاتا تھا، اب اس میں کچھ کرنے کی زیادہ لگن اور حوصلہ تھا، وہ مجھے اکثر ہیلن کیلر کی مثالیں دیتا ،اس کے حوصلے کے واقعات سناتا اس کی لکھی ہوئی کتابوں کے تذکرے کرتا، میں کبھی کبھی اس کی بڑی بڑی باتیں سن کر ،اس کے حوصلے کو دیکھ کر اور اس کے کچھ کر گزرنے کے عزم کو دیکھ کر پریشان ہوجاتا کہ اگر یہ سب کچھ نہ ہوسکا تو اس کے دل پر کیا گزرے گی، لیکن عاقل سجاد نے سب کچھ سچ کر دکھایا آج وہ امریکہ میں ہی خدمات انجام دے رہاہے اس نے پی ایچ ڈی کرلی ہے ، ہاروڈ یونیورسٹی سے اس نے اعلیٰ ڈگری حاصل کی ہے ، اور وہ اپنے کام اور محنت سے بہت کچھ کررہا ہے اور بہت کچھ کرنا چاہتا ہے ، ابھی کچھ دیر پہلے مجھے جس شخص پر غصہ آرہا تھا اس نے مجھے جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا اور نہ صرف مجھے میرے بچپن کے دوست عاقل سجاد کی یادوں میں دھکیل دیا تھا بلکہ مجھے کراچی کا وہ بہت خوبصورت اور کڑیل جوان بھی یاد آگیا جو (Valet Parking)کا کام کرتا ہے، وہ گونگا اور بہرہ(Deaf)ہے اور اس کی شرٹ پر یہ فقرہ لکھا ہوتا ہے کہ میں ڈیف ہوں لیکن آ پکی گاڑی کو محفوظ پارکنگ تک لانے اورلے جا نے کی صلاحیت رکھتا ہوں اور آج میں امریکہ میں جس ٹیکسی کے انتظار میں تھا اور جب وہ آئی تو مجھے اس بات پر غصہ آنے لگا تھا کہ یہ ڈرائیور میری بات کا جواب کیوں نہیں دے رہا ،کہیں میں غلط ٹیکسی کار میں تو نہیں بیٹھ گیا اور پھر شاید اس ڈرائیور کو احساس ہوگیا کہ میں اس سے بات نہ کرنے اور جواب نہ دینے پر پریشانی کا شکار ہوں اس نے اپنی شرٹ کی فرنٹ کے اوپر والی جیب سے ایک کارڈ نکالا اور میری طرف بڑھا دیا میں نے کارڈ پڑھا تو اس پر کراچی کے valetپارکنگ والے نوجوان کی طر ح کا ر ڈ پر لکھا تھا کہ’’میں ڈیف ہوں لیکن محفوظ ڈرائیونگ کے ذریعے آپ کو آپ کی منزل تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہوں۔ مجھے کچھ دیر پہلے جو اس ڈرائیور کی’’ رعونت‘‘ پر غصہ آرہا تھا اب اپنی ناسمجھی اور بے وقوفی پر آرہا تھا اور اس ڈرائیور سے ہمدردی ہورہی تھی حالانکہ ان لوگوں کو جو کسی بھی معذوری کا شکار ہوتے ہیں انہیں ہمدردی کی قطعاً ضرورت نہیں ہوتی اور بعض اوقات یہ ہمدردی پر ناراض بھی ہوجاتے ہیں انہیں تو بس اعتماد کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کی معذوری کو سامنے رکھتے ہوئے ان کو وہ سہولیات فراہم کردی جائیں جس کے ذریعے یہ پڑھ لکھ سکیں، کام کرسکیں، اور اپنی دنیا خود پیدا کرتے ہوئے کسی کیلئے بوجھ نہ بنیں ۔جہاں قدرت ان سے کوئی صلاحیت واپس لے لیتی ہے وہاں ان کے اندر بہت ساری دیگر خصوصیات پیدا کردیتی ہے،میں نے پاکستان بلائنڈ کرکٹ کونسل کے صدر سلطان شاہ کے بارے میں بھی سن رکھا ہے جو نہ صرف پاکستان بلائنڈ کرکٹ کونسل کو بہت اچھے طریقے سے چلا رہے ہیں دنیا بھر میں ہونے والے بلائنڈ کرکٹ کے مقابلوں میں شرکت کرتے ہیں بلکہ ان کی چیئر مین شپ میں قو می بلا ئنڈ کر کٹ ٹیم اس وقت ورلڈ بلائنڈ میں دوسرے نمبر پر ہے اور قومی بلائنڈ کرکٹ ٹیم ورلڈ چمپئین ہو نےکا بھی اعزاز حاصل کرچکی ہے،پاکستان بلائنڈ کرکٹ کو بطور چیئرمین بہتر انداز میں چلانے کے ساتھ ساتھ ورلڈ بلائنڈ کرکٹ کونسل کے صدر بننے کا اعزاز بھی حاصل کر چکے ہیں اور وہ ان دنوں دبئی میں بلائنڈ کرکٹرز کا عالمی کپ منعقد کرانے کیلئے کام کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ میں بہت ساری ایسی مثالیں دے سکتا ہوں جو کسی نہ کسی معذوری کا شکار ہونے کے باوجود ہمت نہیں ہارے اور اپنی منزل حاصل کی ۔ لیکن مجھے ایک فکر مند بھائی کی ایک ای میل نے فکر مند کردیا ہے کہ اس کے ڈیف بھائی کو راولپنڈی کے ایک تعلیمی ادارے میں داخلہ نہیں مل سکا جو معذور بچوں کیلئے بنا ہوا ہے، اس کا بھائی کہتا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ یہ پڑھ کر اپنی زندگی کا بوجھ خود اٹھانے کے قابل ہو لیکن دا خلہ نہ ملنے پر ہم گھر وا لے فکر مند ہیں کہ ہما رے بھا ئی کا مستقبل کیا ہو گا۔ اصل میں یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ پاکستان میں 32لاکھ 86ہزار 630معذوروں کو جن میں سے 21لاکھ 74ہزار دیہی علاقوں میں رہتے ہیں ان کیلئے تعلیم، ہنر اورکسی دوسرے پر بوجھ بنے بغیر اپنی زندگی خود گزارنے کے اسباب پیدا کرنے کیلئے ایسی پالیسی مرتب کرے جو معاون ثابت ہو تو یہ لوگ گاڑیاں بھی چلائیں گے تعلیمی اداروں میں بھی پڑھائیںگے اور عاقل سجاد کی طرح پی ایچ ڈی بھی کریں گے انہیں ہم سب کی معائونت کی ضرورت ہے ۔

تازہ ترین