• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ترین نااہلی کیس، آپ کے پاس میرٹ پر کچھ نہیں، سپریم کورٹ

Todays Print

اسلام آباد( نیوز ایجنسیاں) سپریم کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) کے چیئرمین عمران خان اور سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین نا اہلی کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دئیے کہ پی ٹی آئی کے دونوں رہنماؤں کے خلاف نااہلی کیس کا گہرائی سے جائزہ لے رہے ہیں اور مشترک سوالات کی وجہ سے دونوں مقدمات کا فیصلہ ایک ساتھ کریں گے۔

جہانگیرترین کے وکیل قانون موشگافیوں سے کام لے کر جان چھڑوانا چاہتے ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہاکہ بظاہر وکیل کے پاس تکنیکی پوائنٹ ہے، میرٹ پر کہنے کو کچھ نہیں ۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جہانگیر ترین نے اپنے ڈرائیور کے نام پر حصص خریدے، بتایا جائے جس کمپنی کے شیئر خریدے اس سے آپکے موکل کا کیا تعلق تھا، عمران خان اور جہانگیر ترین کی نااہلی کیس کو گہرائی سے دیکھ رہے ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا کہ کیا ترین کا ذاتی مفاد کیلئے مخصوص معلومات کا استعمال درست تھا؟ جہانگیر ترین کے وکیل کا کہنا تھا کہ ان کے موکل کو آرٹیکل چار کے تحت وہی حقوق حاصل ہیں جو کسی دوسرے شہری کو حاصل ہیں۔

انہوں نے عدالت کو بتایا کہ انکے موکل جہانگیر ترین نے ملازمین کو شیئر خریدنے کیلئے 4؍ کروڑ دیئے انہوں نے 11؍ کروڑ میں بیچے، وکیل سکندر بشیر مہمندنے موقف اپنایاہے کہ غلط قانون کی وجہ سے کسی کو سزا نہیں سنائی جاسکتی اگر کوئی قانون غلط ہو تو عدالت اس کا جائزہ لے سکتی ہے کیونکہ عدالت آئین کی محافظ ہے اور عدالت کسی فراڈ قانون سازی پر ازخود نوٹس لے سکتی ہے۔

چیف جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مسلم لیگ ( ن ) کے رہنما حنیف عباسی کی جانب سے عمران خان اور جہانگیر ترین کی نا اہلی کیلئے دائر پٹیشن کی سماعت کی، جس کے آغاز میں چیف جسٹس نے کہا کہ عمران خان اور جہانگیر ترین نااہلی کیس کا گہرائی سے جائزہ لے رہے ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ مشترک سوالات کی وجہ سے دونوں مقدمات کا فیصلہ ایک ساتھ کریں گے۔حنیف عباسی کے وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ عمران خان نے موقف تبدیلی کی درخواست میں عدالت سے چاند مانگ رہے ہیں، موقف تبدیلی درخواست کی ماضی میں کوئی مثال نہیں۔

دوسری جانب جہانگیر ترین کے وکیل سکندر بشیر نے اپنے دلائل میں کہا کہ سیکیورٹی ایکسچینج کمیشن کے سیکشنز 15 اے اور بی میں فنانس بل کے ذریعے ترمیم غیر آئینی ہے جبکہ عدالت آئین سے بر خلاف ایسی ترمیم کو از خود نوٹس اختیار کے ذریعے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ان سائیڈ ٹریڈنگ کا جرم نیت سے متعلق ہے جبکہ جہانگیر ترین نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا اور نہ ہی میرے موکل کو اس حوالے سے کبھی ایس ای سی پی نے نوٹس بھیجا۔جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کسی کو اسٹاک کی قیمتوں کا علم ہو اور وہ اس سے فائدہ اٹھا لے تو معاملہ نیت کا نہیں جبکہ یہ تو طے شدہ بات ہے، جہانگیر ترین اس بات سے انکار نہیں کر رہے کہ حصص کا انکو علم تھا اور جہانگیر ترین اس وقت حصص خریدنے والی کمپنی میں کا عہدے پر تھے۔

انہوں نے استفسار کیا کہ یہ حصص کل کتنی مالیت کے تھے؟ آپ سوالوں کے جواب دینے کے بجائے ادھر ادھر سے نکل رہے ہیں۔ وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ ادھر ادھر سے نہیں نکل رہا، ہر شہری کی طرح جہانگیر ترین کو بھی آرٹیکل فور کا تحفظ حاصل ہے اور جہانگیر ترین اس وقت کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں تھے۔ چیف جسٹس نے کہا بتائیں کہ اللہ یار اور حاجی خان نے جو حصص خریدے اس سے کتنا فائدہ ہوا اور رقم کس کی تھی؟ جس پر وکیل نے بتایا کہ جہانگیر ترین کے ملازموں نے چار کروڑ 19 لاکھ کے شیئر خریدے اور 11 کروڑ 27 لاکھ روپے میں فروخت کیے۔

جہانگیر ترین کے وکیل کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ ملازمین کو رقم جہانگیر ترین نے فراہم کی تھی اور سیکیورٹیز ایکسچینج کمیشن کی جن دو شقوں کے تحت جہانگیر ترین سے رقم واپس لی گئی، وہ شقیں آئین سے متصادم ہیں جبکہ جہانگیر ترین کو ایسے قانون کے تحت قصور وار قرار نہیں دیا جا سکتا جو غیر قانونی ہے۔اس موقع پر جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ کیا جہانگیر ترین کا ذاتی مفاد کیلئے مخصوص معلومات کا استعمال درست ہے؟ بظاہر وکیل جہانگیر ترین نے تکنیکی نکات علاوہ ان سائیڈ ٹریڈنگ کے میرٹ پر کوئی بات نہیں کی۔جس پر وکیل سکندر بشیر نے کہا کہ جہانگیر ترین کو آرٹیکل چار کے تحت وہی حقوق حاصل ہیں جو کسی دوسرے شہری کو حاصل ہیں۔جسکے بعد سپریم کورٹ نے مقدمہ کی سماعت 18 اکتوبر تک کیلئے ملتوی کر دی گئی۔

تازہ ترین