• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جہانگیر ترین اور وکیل کے موقف میں تضاد، مشکلات میں اضافہ کرسکتا ہے

Todays Print

کراچی (ٹی وی رپورٹ)جیوکے پروگرام ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ میں میزبان شاہزیب خانزادہ نےتجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ جہانگیر ترین اور ان کے وکیل کے موقف میں تضاد نظر آتا ہے جوان کی مشکلات میں اضافہ کرسکتا ہے، اسحاق ڈار کا کیس بھی ایک شیخ کے گرد گھوم رہا ہے، جس طرح شریف خاندان کی منی ٹریل میں قطری شہزادے اور ان کے خط کا ذکر آیا اسحاق ڈار کے کیس میں بھی ایک شیخ کا ذکرا ٓرہا ہےجس کا بیان اسحاق ڈار کے کیس میں اہم ہوگا، یہ بیان کیس کا رخ بدل سکتا ہے، پاکستان میں بسنے والے ترک خاندان کو ملک بدر کرنے کا معاملہ پراسرار رخ اختیار کر گیا ہے،تاہم رانا ثناء اللہ نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ خبروں کی تصدیق یا تردید کرنے کی پوزیشن میں نہیں لیکن مجھے لگ رہا ہے کہ ترک خاندان کو ملک بدر کیا گیا ۔

شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ سپریم کورٹ میں جاری عمران خان اور جہانگیر ترین نااہلی کیس کا فیصلہ ابھی نہیں آیا لیکن چیف جسٹس نے ایک بات واضح کردی ہے کہ دونوں مقدمات کا فیصلہ ایک ساتھ سنایا جائے گا، عمران خان کیس کی سماعت مکمل ہوچکی ہے جبکہ جہانگیر ترین کے کیس کی سماعت چل رہی ہے کیا یہ فیصلہ جلد آئے گا یا اس میں وقت لگے گا، جہانگیر ترین کیس میں کل عدالت نے یہ بھی اشارہ دیا تھا کہ کوئی تحقیقاتی معاملہ ہوسکتا ہے، اگر اس میں وقت لگ جاتا ہے تو کیا عمران خان کا کیس بھی طول پکڑجائے گا۔ شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ جہانگیر ترین کو لیز زمین پر عدالت کے سخت سوالات کے بعد ایک اور مشکل مرحلے کا سامنا ہے، جہانگیر ترین کیخلاف نااہلی کیس میں انسائیڈر ٹریڈنگ کا اہم ترین معاملہ زیربحث آگیا ہے، جہانگیر ترین کی طرف سے عدالت میں آج کچھ دعوے کیے گئے، شاہزیب خانزادہ نے بتایا کہ ہمارے پاس کچھ دستاویزات موجود ہیں، ان میں ایس ای سی پی کا وہ خط بھی ہے جو جہانگیر ترین کو بھیجا گیا اور انہوں نے اس کا جواب دیا، اس خط کے مندرجات جہانگیر ترین کے وکیل کے دعوئوں کے برعکس نظرا ٓتے ہیں، جہانگیر ترین کے وکیل نے آج جو عدالت کو بتایا ہمارے پاس جہانگیر ترین کا انٹرویو موجود ہے اس میں انہوں نے جو باتیں کیں وہ ان کے وکیل کے دعوئوں کے برعکس نظرا ٓتی ہیں۔

شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ بدھ کی سماعت میں چیف جسٹس اور جہانگیر ترین کے وکیل کے درمیان انسائیڈر ٹریڈنگ کے معاملہ پر اہم معاملہ ہوا، جہانگیر ترین کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ ان کے موکل نے انسائیڈر ٹریڈنگ سے کسی کا نقصان نہیں کیا، یہ کہنا درست نہیں کہ شیئرز خریدنے والے جہانگیر ترین کے ڈرائیور اور باورچی تھے، انہوں نے بتایا کہ اللہ یار 1975ء سے جہانگیر ترین کے ملازم ہیں اور لودھراں فارم کے انچارج ہیں جبکہ حاجی خان 1980ء سے جہانگیر ترین کے ملازم ہیں جو لاہور اور اسلام آباد میں ان کے گھروں کی دیکھ بھال کرتے ہیں، مگر ہم آپ کو دکھائیں گے کہ ایس ای سی پی کے نوٹس میں دس سال پہلے کیا لکھا تھا اور کیا جہانگیر ترین نے اس بات کی تصحیح کی تھی، جہانگیر ترین کے وکیل نے شیئرز خریدنے والوں کو اپنے موکل کے ملازم تو تسلیم کیا لیکن ملازمت کی نوعیت مختلف بیان کی، سماعت آگے بڑھی تو چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کمپنی کے شیئرز کی خریداری کیلئے کتنی رقم خرچ ہوئی، اللہ یار نے کتنی رقم کے شیئرز خریدے، ان سوالوں کے جواب دیتے ہوئے سکندر میمن نے بتایا کہ اللہ یار نے ایک کروڑ 30لاکھ روپے کے شیئرز خرید کر چار کروڑ 60 لاکھ روپے میں فروخت کیے جس سے تین کروڑ 30 لاکھ روپے کا منافع ملا، جہانگیر ترین کے ملازمین نے مجموعی طور پر چار کروڑ 19لاکھ کے شیئرز خریدے اور گیارہ کروڑ 27لاکھ روپے میں فروخت کیے یعنی ان کی سرمایہ کاری تین گنا ہوگئی، لیکن ایس ای سی پی نے انسائیڈر ٹریڈنگ کا نفع واپس لے لیا تھا، وکیل جہانگیر ترین کی طرف سے کہا گیا کہ یہ بات درست ہے کہ ملازمین کو رقم جہانگیر ترین نے فراہم کی تھی، اس کے بعد یہ بات غیرمتعلق ہوجاتی ہے کہ وہ مالی یا باورچی تھے یا نہیں تھے، چیف جسٹس نے سکندر میمن سے پوچھا کہ یہ بتائیں جہانگیر ترین شیئرز خریدنے والی کمپنی میں کس عہدے پر تھے تو انہوں نے کہا کہ شیئرز خریدتے وقت جہانگیر ترین جے ڈی ڈبلیو کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں تھے لیکن وزیر نہیں تھے۔

شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ بدھ کی سماعت میں جہانگیر ترین کے وکیل نے انسائیڈر ٹریڈنگ کے معاملہ پر اپنے موکل کے دفاع کی کوشش کی، اس حوالے سے ان کا موقف اپنی جگہ مگر حقائق اس کے برعکس نظر آتے ہیں، جہانگیر ترین کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انسائیڈر ٹریڈنگ کے معاملہ پر سیکورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن نے کوئی نوٹس نہیں دیا لیکن ہمارے پاس موجود دستاویزات کے مطابق ایس ای سی پی نے جہانگیر ترین کو نوٹس بھیجا ، جہانگیر ترین نے جب اس نوٹس کا جواب دیا تو شروع میں اس نوٹس کے ریفرنس نمبر کا حوالہ دیتے ہوئے جواب دیا، جہانگیر ترین نے ہمارے پروگرام میں بھی اس نوٹس کا ذکر کیا تھا، ہمارے پاس موجود دستاویزات کے مطابق جہانگیر ترین نے خود تسلیم کیا کہ انہیں ایس ای سی پی کی جانب سے نہ صرف نوٹسز ملے بلکہ اس معاملہ پر ان کی ملاقاتیں بھی ہوئیں، بدھ کو جہانگیر ترین کے وکیل نے اللہ یار اور حاجی خان کوا پنے موکل کے ملازم تو تسلیم کیا لیکن ان کا کہنا تھا کہ یہ دونوں مالی اور باورچی نہیں تھے جبکہ ایس ای سی پی کی تحقیقات کے مطابق یونائیٹڈ شوگر ملز کے شیئر خریدنے والے جہانگیر ترین کے باورچی اور مالی تھے، یہ بات انہوں نے جہانگیر ترین کو بھیجے جانے والے نوٹس میں بھی لکھی تھی کہ آپ نے یہ کام اپنے باورچی اور مالی کے نام سے کیا، جہانگیر ترین کے وکیل نے بدھ کو عدالت کو بتایا کہ جب شیئر خریدے گئے تو ان کے موکل وزیر نہیں تھے جبکہ ایسا نہیں ہے، 2005ء میں جب شیئرز خریدے گئے تو جہانگیر ترین وزیر تھے اور یہ بات انہوں نے ہمارے پروگرام میں مانی بھی تھی۔

شاہزیب خانزادہ کا کہنا تھا کہ جہانگیر ترین اور ان کے وکیل کے موقف میں تضاد نظر آتا ہے جوان کی مشکلات میں اضافہ کرسکتا ہے، جہانگیر ترین کی انسائیڈر ٹریڈنگ کے حوالے سے ہمارے پاس موجود دستاویزات کے مطابق تین دسمبر 2007ء کو ایس ای سی پی نے جے ڈی ڈبلیو کے ڈائریکٹر جہانگیر ترین کو خط لکھ کر بتایا تھا کہ تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ جے ڈی ڈبلیو شوگر مل نے یونائیڈ شوگر مل کو خریدا مگر خریداری کی بات چیت کے دوران یونائیٹڈ شوگر مل کے 3لاکھ 16ہزار 780 شیئرز خریدے گئے، یہ شیئرز حاجی خان اور اللہ یار نے خریدے، خریدنے جانے والے یہ شیئرز کل شیئرز کا دس فیصد تھے، اگست 2005ء میں آپ کا شیئر تین لاکھ 36ہزار 680 شیئرز تک بڑھ گیا جو کمپنی کے کل شیئرز کا گیارہ فیصد سے زائد ہے، جب جے ڈی ڈبلیو نے یونائیٹڈ شوگرمل خرید لی تو آپ کو سات کروڑ سے زائد کا فائدہ ہوا۔

شاہزیب خانزادہ نے بتایا کہ ایس ای سی پی کے قانون کے مطابق یہ جرم ہے کہ ایک خبر جو اسٹاک مارکیٹ میں عام شیئر ہولڈر کو نہ پتا ہو صرف آپ کو پتا ہو اورا س خبر کے جاننے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ اسٹاک مارکیٹ میں سرمایہ کاری کریں، اس کے بعد جب خبر مارکیٹ میں آجائے تو دوسرے لوگ بھی شیئرز خریدیں اور پھر قیمت بڑھ جائے، اور چونکہ آپ کے پاس پہلے خبر تھی اس لئے آپ نے پہلے شیئرز خرید لیے تھے اور بعد میں آپ شیئرز بیچ کر منافع کمالیں تو یہ جرم ہے، دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹس کے قوانین کے مطابق کسی بھی معلومات کا حصول سب کو ایک وقت میں ہونا چاہئے، اگر کوئی پہلے معلومات حاصل کر کے شیئرز خریدے گا تو جرم کرے گا، جہانگیر ترین نے شیئرز اپنے نام پر نہیں بلکہ اپنے مالی اور باورچی کے نام پر خریدے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ شوگر مل خریدنے کے بعد اس کے شیئرز بڑھیں گے، انہوں نے بتائے بغیر شیئرز خریدے اور جب شوگر مل خرید لی تو اس کے شیئر ز بڑھ گئے جس سے جہانگیر ترین کو سات کروڑ سے زائد کا فائدہ ہوا، ایس ای سی پی کے مطابق گیارہ فیصد شیئرز لینے کے بعد شیئر ہولڈر کو اسٹاک مارکیٹ کو بتانا ہوتا ہے لیکن یہ بھی نہیں کیا گیا، ایس ای سی پی نے اپنے خط میں بتایا کہ جہانگیر ترین اورا ن کے مالی کے نام سے شیئرز خریدے گئے ، جہانگیر ترین کے باورچی اللہ یار نے جنوری 2005ء سے اکتوبر 2005ء تک شیئرز خریدے، اسی طرح جہانگیر ترین کے مالی نے مئی 2005ء سے نومبر 2005ء تک شیئرز خریدے، جہانگیر ترین نے آٹھ دسمبر 2007ء کو ایس ای سی پی کے خط کا جواب دیا اور تسلیم کیا کہ بے ضابطگی ہوئی ہے لیکن ایسا انہوں نے جان بوجھ کر نہیں کیااور ان کی نیت غلط نہیں تھی، انہوں نے اپنے جواب میں لکھا کہ وہ ایس ای سی پی کے الزامات کو سامنے رکھتے ہوئے اعتراف کرتے ہیں کہ کچھ قانونی تقاضوں کی غیردانستہ طور پر خلاف ورزی ہوئی ہو، ہمارا مقصد خود منافع کمانا یا دوسروں کو نقصان پہنچانا نہیں تھا اس لئے وہ سات کروڑ آٹھ لاکھ روپے کی رقم واپس کرنے کو تیار ہیں،

گیارہ جنوری 2008ء کو سامنے آنے والے ایس ای سی پی کے خط کے مطابق کمیشن نے جہانگیر ترین کو ہدایت کی کہ وہ سات کروڑ آٹھ لاکھ روپے واپس کریں، اس کے ساتھ ان پر جرمانہ بھی عائد کیا گیا اور مجموعی طورپر سات کروڑ بیس لاکھ سڑسٹھ ہزار روپے ادا کرنے کا حکم دیا گیا، یہ بھی لکھا گیا کہ آپ نے کمیشن کو قانونی کارروائی کی مد میں دس لاکھ روپے ادا کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے، پھر جہانگیر ترین نے سات کروڑ بیس لاکھ سڑسٹھ ہزار روپے جرمانہ ادا بھی کیا،ایس ای سی پی کے خط کے مطابق جہانگیر ترین نے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج آرڈیننس کے سیکشن 15/A کی خلاف ورزی کی۔شاہزیب خانزادہ نے کہا کہ انسائیڈر ٹریڈنگ کے حوالے سے جہانگیر ترین نے ہمارے پروگرام میں موقف اختیار کیا تھا کہ شیئرز خریدنے کے وقت وہ وزیر تھے، ایس ای پی سی سے انہیں نوٹس ملا تھا، جہانگیر ترین نے اس بات کی تردید نہیں کی تھی کہ شیئرز مالی اور باورچی کے نام پر خریدے گئے۔شاہزیب خانزادہ نے تجزیے میں مزید کہا کہ اسحاق ڈار کیخلاف ریفرنس میں نیب کے تحقیقاتی افسر کی رپورٹ میں ملک میں اور بیرون ملک اسحاق ڈار کے اثاثوں کی تفصیلات لکھی گئی ہیں۔

تازہ ترین