• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایمبولینس کا سائرن:زندگی مانگتا ہے! خصوصی تحریر…ڈاکٹر سعید الٰہی

ایمبولینس سائرن کی آواز دنیا بھر میں یکساں ہے۔ اسے یکساں جذبات ہی کے تحت سنا جاتا ہے اور یکساں احساسات ہی سے اس پر ردعمل کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی انسان سائرن کی اس آواز کو نظرانداز نہیں کر سکتا۔ یہ ایسی آواز ہے جسے سن کر ہر شخص کی زبان پر پہلا جملہ یہی جاری ہوتا ہے ’’اللہ خیر کرے‘‘ ہم ہر روز کہیں نہ کہیں یہ آواز سنتے ہیں۔ سائرن کی یہ آواز مانوس بھی ہے اور ہمارے معمولات ِ حیات کا ناگزیر حصہ بھی۔ کسی محلے میں، کسی گھر کے سامنے کھڑی مخصوص گاڑی میں گونجتا یہ سائرن سب کو اپنی طر ف متوجہ بھی کرتا ہے اور کسی ایمرجنسی کا اعلان بھی۔ سائرن کی یہ آواز ’’ایمبولینس‘‘ سے خاص طور پر وابستہ ہو کر رہ گئی ہے۔ اسے سن کر فطری طور پر دل اور ذماغ میں ہمدردی کے احساسات جاگ اٹھتے ہیں۔ یہ سائرن کیا ہے اور ایمبولینس ہماری سماجی اور طبی زندگی میں کیا اہم کردار ادا کر رہی ہے؟ ہم نے کم کم اس پہلو پرکبھی غور کیاہے۔
’’ایمبولینس ‘‘ کا لفظ دراصل لاطینی لفظ AMBULARE سے نکلا ہے۔ اس کامعنی ہے ’’دو یا دو سے زیادہ افراد کا کسے شے کو ایک مقام سے اٹھا کر دوسرے مقام تک منتقل کرنا‘‘ دلچسپ بات یہ ہے کہ لاطینی زبان میں پیدل چلنے کو بھی ’’ایمبولینس‘‘ کہا جاتا ہے۔ ایمبولینس کو سب سے پہلے نپولین کی افواج کے مشہور سرجن اور ڈاکٹر ڈومنک جین لیری نے متعارف کروایا۔ یہ عجب اتفاق ہے کہ ایمبولینس اور ایمبولینس کا سائرن تقریباً ساتھ ساتھ ہی منصہ شہود پر آئے۔ اگرچہ سائرن کی ایجاد کا سہرہ فرانس سے دور اسکاٹ لینڈ کے ایک ماہر طبیعات جان رپسن کے سر بندھتا ہے۔ ان دونوں اختراعات نے انسانی زندگی بچانے میں ایسا کردارادا کیا ہے کہ اسے باقاعدہ اعداد و شمار کے دائرے میں محیط نہیں کیاجاسکتا۔ زندگی بچانے کےلئے ایمبولینس کے اندر چنگھاڑتا سائرن ہو یا آگ کے شعلوں کو سرد کرنے کےلئے فائربریگیڈ کی گاڑیوں کے اوپر نصب سائرن کی مخصوص آواز، ان دونوں سائرنوں نے اب تک کروڑوں انسانوں کو نئی زندگیوں کا پیام دیا ہے۔ پچھلے ڈھائی تین سو برسوں کے دوران شمالی امریکہ اور مغربی یورپ میں جتنی بھی ایمبولینسیں بروئے کار رہی ہیں، اب یہ ان ممالک کے عجائب گھروں کی زینت بنا دی گئی ہیں۔ خوش قسمتی سے مجھے ان عجائب گھروں میں جانےکے متعدد مواقع میسر آئے ہیں۔ ان کی سیر کے دوران واضح ہوتا ہے کہ ایمبولینس نے موجودہ شکل اختیار کرنے سے پہلے درجنوں مراحل اور مراتب طے کئے ہیں۔ یہ عجائب گھر ہمیں بتاتے ہیں کہ ایک زمانہ ایسا تھا جب ’’ایمبولینس‘‘ صرف دو افراد کا ایک چارپائی نما بستر پر پڑے مریض کو اٹھانے کا تھا۔ ربڑ کا پہیہ معرض وجود میں آیااورموٹرگاڑی ایجاد ہوئی تو ایمبولینس نے تیزی کے ساتھ موجوہ شکل اختیار کرلی۔ یہ شکل اب ساری دنیامیں منفرد اور ممتاز حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ اس کے مخصوص سائرن نے اسے مزید انفرادیت اور امتیاز بخش دیا ہے۔ حیرانی کی بات ہے کہ د وسری جنگ عظیم کے آس پاس ہی امریکیوں نے باقاعدہ ایمبولینس کو پہلے فوج میںاور پھر شہری زندگی میں استعمال کرنا شروع کیاتھا۔
ایمبولینس کے سائرن کی آواز سن کر فوری طور پر اور بغیر کسی تاخیر کےراستہ دینا ہرشہری کااخلاقی، دینی اور قانونی فرض ہے۔ ایمبولینس کے سائرن کی آواز سن کر راستہ نہ دینا اور اپنی جگہ پر ڈٹے رہنا بداخلاقی بھی ہے، غیرانسانی فعل بھی اورشدید قسم کی بے حسی بھی۔ ایمبولینس کا سائرن محض ایک شور مچاتی آواز نہیں ہے بلکہ یہ اعلان ہے کہ زندگی اور موت کے درمیان بہت کم فاصلہ رہ گیا ہے۔ اس لئے ایمبولینس کو صورت فوری راستہ فراہم کیا جائے۔ مہذب اور سوک سینس کا تقاضا ہے کہ ہم ایمبولینس کا راستہ مسدود کرنے کا کبھی باعث نہ بنیں۔ ہمارے اکثر عوام ایمبولینس کے سائرن کی آواز سن کر مثبت اور مطلوبہ ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں لیکن یہ بھی اکثر اوقات دیکھا گیا ہے کہ ایمبولینس کے سائرن کی آواز گونجتی رہتی ہے اور ایمبولینس کی چھت پرلگی سرخ بتیاں جلتی رہتی ہیں لیکن بھیڑ راستہ نہیں دیتی۔ آبادی کے بے پناہ بڑھ جانے سے ہمارے سب بڑے شہروں میں ٹریفک رش بھی بے پناہ بڑھ گیا ہے۔ یہ رش کئی بار زندگیوں کے تلف ہونے کاموجب بن جاتا ہے کہ رش میں پھنسی ایمبولینس کو آگے بڑھنے کا راستہ نہیں ملتا اور فوری طبی امداد کا مستحق ایمبولینس کے اندر ہی اللہ کوپیارا ہو جاتا ہے۔ ملک بھر میں ایسے بہت سے واقعات متعدد بار رونما ہوچکے ہیں۔ یہ امر تشویشناک ہے۔ ہمیں اپنے رویوں کو بھی بدلنے کی فوری ضرورت ہے اور ہر شہر کے منتظمین پر بھی لازم ہے کہ وہ مستقل بنیادوں پر کوئی ایسا انتظام کریں کہ ایمبولینس کسی بھ شکل میں اور کسی بھی وقت ٹریفک رش میں پھنس کر نہ رہ جائے۔ ترقی یافتہ ممالک کے ہر چھوٹے بڑے شہر میںتو ہر اہم شاہراہ کے بیچوں بیچ اتنی جگہ چھوڑ دی جاتی ہے جس پر ایک ایمبولینس آسانی کے ساتھ گزر سکے۔ وہاں قانون بھی بنائےگئے ہیں کہ شاہراہوںکےدرمیان صرف ایمبولینس کے لئے بنائی جانے والی پٹی پر کوئی دوسری گاڑی نہیں چل سکتی۔ خلاف ورزی کرنے والوں کو بھاری جرمانے کئے جاتے ہیں۔ اگرہمارے وطن میں بھی کوئی ایسا یا اس سے ملتا جلتا کوئی انتظام اور اہتمام ہوجائے تو مستحسن ہوگا اور ہزاروں مریضوں اور زخمیوں کی جانیں بروقت بچائی جاسکیں گی۔ جناب نواز شریف اور جناب شہباز شریف کی کوششوں اورعملی اقدامات کی بدولت لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی اور ملتان میں میٹرو گاڑیوں کے لئے جو علیحدہ ٹریک بنائے گئے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ میڈیکل ایمرجنسی کی صورت میں ایمبولینسوں کو یہ ٹریک استعمال کرنے کی اجازت دی جانی چاہئے۔ یہ بہت بڑی سہولت ہوگی اوراس پر علیحدہ سے کوئی تعمیری اخراجات بھی نہیں ہوںگے۔
الحمد للہ ہلال احمر پاکستاان کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ ہمارے پاس درجنوں ایمبولینسیں موجود ہیں۔ یہ جدید میڈیکل تقاضوں کو بھی پورا کرتی ہیں اور جدید میڈیکل آلات سے بھی مزین ہیں۔ ہلال احمر پاکستان کی یہ ایمبولینسیں ملک کےہر بڑے شہر میں موجود ہیں اور ان کے تربیت یافتہ سینکڑوں رضا کاروں اور عملے نے ہر ہنگامی صورت میں زخمیوں اور بیماروں کو فوری طبی امداد بھی فراہم کی ہے۔ ہلال احمر پاکستان کی یہ ایمبولینسیں زلزلوں اور سیلابوں کے مواقع پر مدد فراہمی کے لئے ہمیشہ سب سے پہلے بروئے کار آتی ہیں۔ ضرورت بس تربیت کی ہے۔ ہر گھر، ہر تعلیمی ادارے اور ہر شہری کو یہ پیغام دینے کی ضرورت ہے کہ ایمبولینس کا سائرن سنتے ہی بغیر کسی تحقیق کے فوری طور پر ایمبولینس گاڑی کو آگے بڑھنے کا راستہ فراہم کردیاجائے۔ کون جانتا ہے کہ ایمبولینس کے اندر لیٹا مریض کتنی شدت سے طبیب اور ڈاکٹر کے پاس پہنچنے کامنتظر ہے اور زندگی و موت کے درمیان کتنا راستہ باقی رہ گیا ہے۔
(صاحب ِتحریر ہلال احمر پاکستان کے چیئرمین ہیں)

تازہ ترین