• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تارکین وطن اور او پی ایف تحریر:مظہر چوہدری…مانچسٹر

خوشحال اور اور پر امن زندگی کی تلاش میں دیار غیر کا قصد کرنے والوں کو جب سات سمندر پار،ایک اجنبی ملک ، انجانی زبان اور ان دیکھی ثقافت میں غریب الوطنی اپنی تمام تر سفاکیت کے ساتھ تلخ تجربات کی بھینٹ چڑھاتی ہے،انھیں ایک اور سمندر کا سامنا ہوتا ہے جب وہ ایک سمندر کے پار اترتے ہیں ۔ تو ایک واحد سہارا جو ریاست پاکستان کی طرف سے ان کو ملنا چاہیئے وہ بیرون ملک پاکستانی قونصل خانے اور اوور سیز پاکستانی فائو نڈیشن کی صورت میں میسر ہوتا ہے ، کیا یہ ادارے واقع ہی ان کے ممد ومعاون ہوتے ہیں، یا پاکستانی سٹائل دفاتر کا ماحول ہوتا ہے ؟ سچی بات ہے کہ ان اداروں نے ماضی میں تو کوئی عمدہ کارکردگی کا مطاہرہ نہیں کیا ، لیکن اب کی بار حکومت پاکستان نے ان ادارو ں میں تارکین وطن کو نمائیندگی دیتے ہوئے اوور سیز پاکستانی کمیشن میں زبیر گل کو تعینات کیا تو او پی ایف کے بورڈ آف گورنرز کے چیئرمین کی ذمہ داری بیرسٹر امجد ملک کو سونپی گئی۔ جنھو ں نے انتہائی سرعت سے کام کا آغاز کیا اور قلیل عرصہ میں ٹھوس اقدامات کئے، بلکہ بیرون ملک کمیونٹی کو ا س تمام تر کاموں میں شامل بھی کیا ، کیونکہ وہ برطانیہ کے نظام سے بخوبی واقف تھے اور انہیں یہ بھی ادراک تھا کہ جن کے لئے یہ ادارہ قائم ہوا ہے ان کی اس میں شمولیت کے بغیر اچھے نتائج نہیں دئیے جاسکتے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب برطانیہ سمیت یورپ بھر میں عوام کو ان کے کام کا بھی پتہ چل رہا ہے اور اس کے مثبت نتائج بھی سامنے آ رہے ہیں ۔
تارکین وطن جو خوشحال زندگی کے خواب من میں سمائے سمندر پار آتے ہیں ، ان میں سے چند تو سمندر پار کر جاتے ہیں، کچھ پلٹ جاتے ہیں۔ سمندر پار کر جانے والوں کی کہانی یہاں پہ ختم نہیں ہوتی، بلکہ یہیں سے ایک نئی داستان کا باب کھلتا ہے ،،، یہ داستان طربیہ بھی ہے اور المیہ بھی ۔۔کچھ دیار غیرمیں ہی رہنے کا عزم کرتے ہیںتو کچھ عارضی ٹھکانے کا کہہ کر اپنے دل کو تسلی دیتے ہیں کہ جب معقول جمع پونجی ہو گئی اور ملک کی معیشت بہتر ہوئی تو ملک سدھار جائیں گے۔ لیکن واہ ری قسمت کہ نہ ان کی جمع پونجی خاصی ہوتی ہے نہ وطن کی اقتصادی صورتحال بہتر ۔ اب نہ وہ واپس جاسکتے ہیں نہ وطن بلاتا ہے ۔۔۔ وطن ان کو واپس بلاتا تو نہیں البتہ اب زرمبادلہ کا تقاضہ کرنے لگ گیا ہے ، سرمایہ داری نظام اور بین القوامیت کا جو دور دورہ ہے ۔۔۔ !ریاستیں اگر کچھ مانگتی ہیں تو انھیں کچھ دینا بھی پڑتا ہے ،،، پہلے پہل تو تارکین وطن ناا ٓشنا تھے مگر اب آدم سمتھ کے فلسفہ معیشت پر مبنی سرمایہ دار ملکوں میں رہتے ہوئے انھیں جہاں اپنے حقوق و فرائض کا علم ہوا ہے وہیں پہ اپنے اپنے آبائی ممالک کے وسائل پر جو ان کا حق بنتا ہے وہ بھی جاننے لگے ہیں ۔
چند سال کے لئے آنے والوں کو بھی اب دیار غیر میںآئے ہوئے چالیس پچاس سال ہو چکے ہیں ۔۔ جیسے بقول مشتاق یوسفی کہ ؛ پاکستان کے حالات حاضرہ کو بھی اب ستر سال ہوگئے ہیں ــ؛۔تارکین وطن جو پاکستان میںاپنے ماں باپ،بہن بھائی ، دوست احباب اور جائیدادچھوڑ کر آئے تھے آج جب وہ پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو رشتوں کی محرومی کے ساتھ ساتھ جائیدادکی محرومی کا بھی شکار ہوئے، رشتوں کی محرومی تو قدرت امر کہلاتی ہے لیکن زمین جائیداد کی محرومی سراسر حکومتی امر کی مرہون منت تھی ،،، گذشتہ حکومتوں نے ان معاملات کے حل کے لئے وزارت اموربرائے سمندر پار پاکستانیز تو بنا دی لیکن یہ وزارت اور اس کے ذیلی ادارے صحیح معنوںمیں سمندر پار پاکستانیوں تک پہنچ پائے نہ ان کے مسائل کا جائزہ لے سکے، یہی وجہ ہے کہ تارکین وطن کی گوناں گوں مشکلات اورمصائب میں اضافہ ہی ہوتا رہا ۔۔۔۔۔ ۔ ۔, درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ، کے بقول اداروں پر ادارے بنے مگر نتائج مثبت نہ برآمد ہو سکے ،، وجہ اداورںمیں کام کرنے والے افراد کی سوچ اورجذبے کی عدم موجودگی تھی ،، اس وزارت کے زیر اہتمام او پی ایف بھی کام کر رہا تھا ۔۔ عمرانی علوم کے ماہرین کے بقول اشخاص کی بجائے ادارے اہم ہوتے ہیں ، لیکن ہم کہتے ہیں کہ ادارے وہی اہم ہوتے ہیں جن کو اشخاص صٰحیح ڈگر پر چلاتے ہیں ۔جو ادارے صحیح معنوںمیں فرائض سر انجام نہیں دیتے وہ دن بدن اپنی افادیت کھو دیتے ہیں ۔۔ اسی طرح کی مثال ہم او پی ایف کی بھی دے سکتے ہیں، جو قائم تو گذشتہ طویل عرصے سے تھا مگر اس میں جان ایک شخص نے ڈالی ہے ۔۔ نام جس کا بیرسٹر امجد ملک ہے تو کام اس کا آج سب پر روز روشن کی طرح عیاں ہے ، ۔۔ جو آج کے جدید دور کے تقاضوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اب ریاستیں افراد کی مرہون منت ہیں ، وہ زمانے لد گئے جب لوگ ریاستوں کے محتاج تھے ،، کیپٹلسٹ اور گلوبلائز معاشرے کے انسان کے سامنے ایک وسیع دنیا ہے ،،، اب پر دیسیوں کے لئے گیت نہیں لکھے جاتے، آج جدائی کے نغمے بھی نہیں گنگنائے جاتے ،،، پردیسیوں سے نہ اکھیاں ملانا ، جیسے گیت متروک ہو چکے ، آج کی دنیا میں کوئی پردیسی نہیںرہا ،،آج کے جدید انسان کو پتہ ہے کہ اس میں موجود صلاحیتوں کی کہاں قدر ہے اور کہاں بے قدری ۔۔۔ بیرسٹر امجد ملک جانتے ہیں کہ حب الوطنی اب غیر مشروط نہیںرہی ۔۔۔ ریاستیں اگر کسی کو کچھ دے سکیں تو حب وطن کی تلقین بھی نہیں کر سکتیں ۔۔ لہٰذاکچھ کر کے دکھانا ہو گا ۔۔ اپنے لوگوں کے لئے ،اپنی افرادی قوت کے لئے ۔۔ ریاست کو آگے آنا ہو گا ۔۔ مجھے خوشی ہے کہ بیرسٹر امجد ملک نے جب سے اس ادارے کے بورڈآف گورنرز کے چئیرمین کی ذمہ داریاں سنبھالی ہیں یہ نظر آنے لگا ہے ۔ ،،گزشتہ روز انھوں نے راچڈیل کے تاریخی ٹائون ہال میں پاکستانی کمیونٹی سے مثبت ڈائیلاگ کے لئے ایک تقریب کا انعقاد کیا ، نارتھ ویسٹ برطانیہ سے پاکستانی کمیونٹی کے نمایاں سماجی،سیاسی اور کاروباری حلقوں کی اس تقریب میں بھرپور شرکت اس بات کی غماض تھی ،کہ وہ اس نئے اقدام سے مطمئن ہیں۔ ان کو اس ادارے میں شرکت کرنے سے اپنائیت کا احساس ہو رہا تھا ۔۔ اس موقع پر کمیونٹی کے لئے سوشل ورک کرنے والوں کو انعامات بھی دئیے گئے اور دیگر مقررین کے ساتھ ساتھ پاکستانی قونصل جنرل کی تقریر بھی خاصی جاندار،ٹھوس اور بامعنی تھی۔

تازہ ترین