• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 12اکتوبر 1999کو مارشل لا کے نفاذ کے کچھ عرصہ بعد ہی پرویز مشرف کی حکومت چاہتی تھی کہ معزول وزیراعظم نوازشریف پاکستان سے باہر چلے جائیں تاکہ وہ سکون سے حکمرانی کر سکیں۔ اس وقت پیپلزپارٹی کو اس حکومت سے کوئی بڑا سیاسی خطرہ نہیں تھا۔ باقی سیاسی جماعتیں یا تو پرویز مشرف کی حمایتی بن چکی تھیں یا ان میں اتنی سکت ہی نہیں تھی کہ وہ انہیں چیلنج کر سکتیں۔ نوازشریف، شہبازشریف اور ن لیگ کے بہت سے اہم رہنما پابند سلاسل تھے اور ان کی جماعت میں توڑ پھوڑ کر کے ’’کنگز پارٹی‘‘ یعنی ق لیگ بنانے کی تیاریاں کی جارہی تھیں۔ صرف بیگم کلثوم نواز ہی تھیں جو کہ وقت کے آمر کے لئے بڑا سیاسی خطرہ بن کر سامنے آئیں اور ان کی لگا تار کمپین نے اس کے لئے کافی مشکلات پیدا کیں۔ کسی حد تک مریم نواز بھی اپنی والدہ کی مدد کر رہی تھیں۔ ایسے حالات میں جب پرویز مشرف کیلئے’’ستے خیراں‘‘ تھیں اور صرف بیگم کلثوم ہی ایسا تکلیف دہ کانٹا تھیں جس کو ہٹنا ضروری تھا اور یہ صرف اسی وقت ہی ممکن تھا جب ان کے خاوند اور ان کے تمام خاندان کو پاکستان سے نکالا جائے۔ ایک طرف تو یہ پرزور خواہش تھی تو دوسری طرف کچھ ممالک حکومت پر لگاتار دبائو ڈال رہے تھے کہ وہ نواز شریف اور ان کی فیملی کو پاکستان سے باہر جانیں دیں لہٰذا 10دسمبر 2000کو ایسا ہی ہو گیا جب سابق وزیراعظم اور ان کے خاندان کے دیگر افراد سعودی عرب جلاوطنی میں چلے گئے۔ پرویز مشرف اور ان کے ساتھی بہت خوش تھے کہ ایک بہت بڑے سیاسی چیلنج سے جان چھوٹی لہٰذا وہ بڑے سکون سے حکومت کر سکیں گے۔ ایسے ہی ہوا اگلے 7سال ان کی حکومت مزے سے جو چاہتی کرتی رہی۔
جب نوازشریف 28جولائی کو عدالت عظمیٰ کے پاناما کیس میں فیصلے کی وجہ سے معزول کئے گئے تو انہوں نے اپنی برطرفی کو قبول نہیں کیا کیونکہ یہ نہ صرف ان کی بلکہ بہت سے اور لوگوں کی رائے میں یہ سب کچھ ایک سازش کے تحت وقوع پذیر ہوا لہٰذا انہوں نے اس پر بہت شور مچایا اور سازشی عناصر کو ایکسپوز کیا۔ ظاہر ہے کہ اس وقت کسی آمر کی حکومت تو نہیں ہے مگر جنہوں نے یہ سارا کھیل کھیلا وہ چاہتے ہیں کہ نوازشریف اب لندن میں ہی رہیں اور پاکستان کا رخ نہ کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی یہ بھی دلی خواہش ہے کہ مریم نواز بھی ملک سے باہر ہی رہیں تاکہ انہیں کوئی چیلنج کرنے والا یہاں نہ رہے۔ اکثر وبیشتر اداروں میں جو تنائو نظر آتا ہے (جو کہ اس وقت کسی حد تک کم ہو گیا ہے) اس کی وجہ بھی نوازشریف کی پالیسی ہی ہے جو کہ انہوں نے 28جولائی کے بعد اپنائی ہے۔ سابق وزیراعظم کو پاکستان سے باہر رکھنے کی خواہش رکھنے والوں کا خیال ہے کہ ان کی ملک سے غیر موجودگی ٹکرائو کی صورتحال کو ختم کر دے گی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نوازشریف کی ن لیگ پر گرفت بھی کمزور ہو جائے گی۔ تاہم سابق وزیراعظم کا ان کی خواہش پوری کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ وہ جلد ہی پاکستان واپس آجائیں گے اور اپنی جماعت کو بھرپور طریقے سے لیڈ کریں گے اسی میں ان کی پارٹی کا اتحاد بھی پنہا ہے۔ اگر وہ اپنی جماعت سے لاتعلق ہو جائیں گے تو قویٰ امکان ہے کہ وہ منصوبہ جس کا مقصد ن لیگ کے حصے بخرے کرنا ہے پر عمل کرنا کافی آسان ہوجائے گا مگر جب نوازشریف پاکستان میں موجود ہوں گے جیل میں یا اس کے باہر تو وہ پوری طاقت سے اس کی سربراہی کر تے رہیں گے لہٰذا اس پر حملے بڑی حد تک ناکام ہو جائیں گے۔ ن لیگ کو سب سے زیادہ خطرات آئندہ عام انتخابات سے کچھ عرصہ پہلے لاحق ہوں گے جب سرتوڑ کوشش کی جائے گی کہ اس میں دراڑیں پیدا کی جائیں تاکہ یہ انتخابات میں واضح کامیابی نہ حاصل کر سکے۔ باوجود اس کے کہ نوازشریف کو نااہل قرار دے کر وزیراعظم ہائوس سے نکال دیا گیا ہے اور انہیں اور ان کے خاندان کے دوسرے افراد کو احتساب عدالت میں ریفرنسوں کا سامنا ہے مگر اس سارے عمل نے ن لیگ کی مقبولیت پر کوئی برا اثر نہیں ڈالا بلکہ یہ بڑھی ہی ہے اور یہی بات اس پر حملہ آور ہونے والوں کے لئے بہت تکلیف دہ ہے۔ اس وقت بھی نوازشریف ہی پاکستان کے مقبول ترین لیڈر ہیں اور عمران خان ان سے کافی پیچھے ہیں۔ رہی بات آصف زرداری کی تو وہ گن گرج تو بڑی دکھا رہے ہیں مگر ان کی حالت خصوصاً پنجاب میں کسی طور بھی بہتر نہیں ہو رہی۔ آئندہ انتخابات میں نہ صرف عمران خان بلکہ آصف زرداری کو بھی پاکستان کے ہر قومی وصوبائی حلقے سے امیدوار ملنا ایک معجزہ ہی ہوگا جیتنے کی بات تو بعد میں آئے گی۔ اس وقت نوازشریف کی لندن میں موجودگی کا جواز موجود ہے کہ بیگم کلثوم کا علاج ہو رہاہے اور یہ اگلے کئی ماہ جاری رہے گا۔ مشکل لگ رہا ہے کہ وہ یہ تمام عرصہ برطانیہ میں ہی رہیں۔ان کا سیاسی مستقبل پاکستان میں ہے نہ کہ ملک سے باہر۔ اپنی جلاوطنی کے دوران بھی انہوں نے کئی بار بھرپور کوشش کی کہ وہ پاکستان واپس آسکیں مگر انہیں ڈی پورٹ کر دیا گیا۔ ن لیگ کے وہ رہنما جو سابق وزیراعظم کو ’’ہتھ ہولا‘‘ رکھنے کا بار بار مشورہ دے رہے ہیں وہ بھی اندر سے یہی چاہتے ہیں کہ نوازشریف پاکستان آجائیں کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ ان کے بغیر ن لیگ کی وہ سیاسی اسٹینڈنگ نہیں ہے جو کہ ان کی ملک میںموجودگی کی وجہ سے ہوگی۔خصوصاً آئندہ عام انتخابات میں تو انہیں جان کے لالے پڑ جائیں گے اگر سابق وزیراعظم منظر سے غائب رہے۔ فی الحال تو نوازشریف سازشی عناصر کے لئے گلے کی ہڈی بنے ہوئے ہیں جس کو اگلنا اور نگلنا مشکل ہے۔ ان کو وزیراعظم ہائوس سے تو نکال دیا گیا مگر ان کو عوام کے دلوں سے کیسے نکالیں گے جو انہیں سپورٹ کرتے ہیں۔
نوازشریف کی نااہلی پر بغلیں بجانے والے اب خود اسی شکجنے میں آنے والے ہیں اور خصوصاً وہ سیاستدان یعنی عمران خان اور جہانگیر ترین جنہوں نے یہ ساری بساط بچھائی تھی۔ دونوں کی نااہلی کا کیس عدالت عظمیٰ میں کافی مشکل مراحل میں داخل ہو گیا ہے جہاں سے ان کا بچنا کسی معجزے سے کم نہیں ہو گا۔ اگر وہی سخت ترین معیار جو سابق وزیراعظم کے لئے اپنایا گیا تھا پر ہی عمل کیا گیا تو عمران خان اور جہانگیر ترین ہر صورت ڈس کوالیفائی ہو جائیں گے تاہم یہ عدالت کی صوابدید ہے کہ وہ معیار کا پیمانہ کیا رکھتی ہے۔ ججوں کے جو ریمارکس آرہے ہیں اس سے تو ان دونوں رہنمائوں کے بچنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا۔ ’’مسٹر کلین‘‘ (جہانگیر ترین) کے ڈرائیور اور ایک دوسرے ملازم نے کروڑوں کے شیئرز خریدے اور یہ رقم کچھ عرصے بعد تین گنا ہو گئی۔ سرمایہ بھی جہانگیر ترین نے دیا اور منافع بھی انہوں نے لیا تو پھر شیئرز ملازمین کے نام لینے کا کیا مقصد تھا۔یہ صرف وہی بتا سکتے ہیں۔تاہم سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین کے وکیل کو بتا دیا ہے کہ ان کے پاس میرٹ پر کہنے کو کچھ نہیں قانونی موشگافیوں کے ذریعے جان چھڑانا چاہتے ہیں۔رہا مسئلہ عمران خان کا تو عدالت کہہ چکی ہے کہ لندن فلیٹ، آف شور کمپنی اور بنی گالا زمین کی خریداری کے بارے میں ان کا ایک بیان دوسرے سے نہیں ملتا۔ عمران خان کا اب یہ کہنا ہے کہ انہوں نے ایک لاکھ پائونڈ کے بارے میں پہلے جو کچھ عدالت کو بتایا تھا وہ ان کی یادداشت پر مبنی تھااور انہوں نے غلط مشورے پر غلط معلومات دیں۔ عدالت کے سامنے تو کیس ہی سارا غلط بیانی کا ہے اگر یہ موصوف خود ہی مان رہے ہیں تو پھر مزید بحث کیسی۔

تازہ ترین