• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی ڈائری:بھگوڑے آمر کے قانون سے نواز فیملی کا احتساب

اسلام آباد (محمد صالح ظافر/خصوصی تجزیہ نگار) سبکدوش وزیراعظم نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر کے خلاف متنازع چند مقدمات میں فرد جرم ایسے وقت میں عائد کی گئی ہے کہ نواز شریف اور ان کے وکیل خواجہ حارث دونوں عدالت میں موجود نہیں تھے، ان کے صاحبزادوں کو الگ سے ہدف بنایا جا رہا ہے، احتساب کا غلغلہ برپا ہو رہا ہے اور انصاف منہ چڑاھا رہا ہے، نواز شریف اور اُن کے خانوادے کو اس احتساب کا سامنا ہے جس کا قانون ماضی کے آمرانہ قانون کے ایک بھگوڑے نے تخلیق کیا تھا یہ وہی شخص ہے جس نے 1999ء میں جمہوری حکومت کا تختہ الٹ کر نواز شریف کو دارورسن کے سپرد کرنے کی بھونڈی کوشش کی تھی، اہل خبر کو علم ہے کہ پاکستان کے عوام نے 2013ء کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی دلاکر نواز شریف کو جس آزمائش میں ڈالا تھا وہ ایک دن کے لیے بھی ان کے لیے باعث آسودگی ثابت نہیں ہوئی، وہ انتخابات کے بعد کامیابی کے باوجود حکومت سنبھالنے میں متامل تھے انہیں بخوبی احساس تھا کہ پاکستان کی ترقی کے لیے وہ جس خواب کو پال رہے ہیں اسے بعض عناصر شرمندہ تعبیر نہیں ہونے دیں گے، یہ عناصر اچھی طرح جانتے تھے کہ نواز شریف اپنے مقصد میں سرخرو ہوں گے، ان کے ارادوں سے وابستہ بدگمانیاں بدستور ان کی شخصیت کے ساتھ جوڑی جا رہی تھیں ان کی نظر میں چین پاکستان اقتصادی راہداری پر مرتکز تھیں جس کے بارے میں چینی قیادت انہیں اعتماد میں لے چکی تھی اور چینی صدر نے بھری بزم میں کہہ دیا تھا کہ یہ عظیم منصوبہ ان کی طرف سے نواز شریف اور پاکستان کے لیے تحفہ ہے، ملک میں بجلی کی قلت نے بستیوں اور شہروں کو اندھیرے میں ڈبو رکھا تھا، معاشی ترقی کا تصور ناپید تھا، مواصلاتی نظام زبوں حالی کا شکار تھا اور دہشت گردی کے عفریت نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا، گرانی بے قابو ہو رہی تھی، عالمی نقشے پر پاکستان کی توقیر سوالیہ نشان بن کر رہ گئی تھی اسی طرح دیگر مسائل نے بے یقینی کے ماحول کو پوری قوم پر مسلط کر رکھا تھا ان عوامل نے بھی نواز شریف کو ہراساں کر رکھا تھا تاہم اُنہوں نے تائید ایزدی کے سہارے حالات کے سدھار کا بیڑھا اُٹھایا، ان کے بارے میں یہ تاثر عام تھا کہ وہ خطے میں تصادم نہیں افہام و تفہیم سے مسائل کا حل چاہتے ہیں، ان کا یہ جذبہ کسی کمزوری یا خوف کا شاخسانہ نہیں تھا، نواز شریف تو وہ تھے جنہوں نے طاقت کے بین الاقوامی مراکز کی شدید مخالفت اور اندرون ملک قوت کے بعض مراکز کی مزاحمت کے باوجود بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا تھا اور بھارت کے پانچ تجربات کا جواب 6دھماکوں سے دیا تھا، 1999ء کے واقعات کا حوالہ دے کر انہیں مزاحتمی شخصیت کے طور پر ان کے مخالفین متعارف کراتے رہے لیکن نواز شریف نے انتہائی کڑوی کسیلی گفتگو اور شرارتوں کے باوجود ملک کی خدمت میں کمی نہیں آنے دی، ان کے خلاف نام نہاد لانگ مارچ کیا گیا، بحیرہ اوقیانوس کی دوسری جانب سے ایک مداری کو منگواکر ناٹک کرایا گیا، طولانی اور بے معنی دھرنے دیئے گئے ہر دوسرے تیسرے دن ان کے خلاف جلسے اور احتجاج کا طومار باندھا گیا، لاک ڈاؤن کیے گئے، الغرض ایسی کوئی تدبیر اختیار کرنے سے باقی نہیں رکھی گئی جو ان کے کام میں رخنہ اندازی کر سکے، اس تمامتر کے باوجود انہیں بہترین اور شاندار نتائج دکھانے پر عالمی پذیرائی ملتی رہی، اس پورے عرصے میں وہ کانٹوں کی سیج پر بیٹھ کر اپنی ذمہ داریاں انجام دیتے رہے ان کی سوچ سے خائف عناصر کو یہ پریشانی کھائے جا رہی تھی کہ نواز شریف اپنی کارکردگی کے بل بوتے پر ایک مرتبہ پھر عوام کا اعتماد حاصل کرلیں گے، پاکستان کی دشمن عالمی قوتیں اسی نواز شریف سے خوفزدہ تھیں یہی وجہ ہے کہ پاناما کا معاملہ سامنے لایا گیا جس میں نواز شریف کا نام نہ ہونے کے باوجود انہیں ماخوذ کیا گیا اور پھر اقامے کا عذر استعمال کر کے ان سے وزارت عظمیٰ چھین لی گئی، جمعرات کو ان پر جو فرد جرم عائد کی گئی ہے بعض سیاسی لال بجھکڑ گزشتہ ڈیڑھ سال سے اسے سنانے میں مصروف ہیں اب کہا جا رہا ہے کہ ان کی حکومت کو آئندہ سال مارچ تک نہیں جانے دیا جائے گا ۔
تازہ ترین