• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صلح کے معاملے پر کورٹ آف اپیل کا فیصلہ امیگریشن قوانین… ڈاکٹر ملک کے ساتھ

چند ہی ہفتے قبل ’’عدالتی فیصلوں کی اشاعت پر پابندی‘‘ کے عنوان سے راقم نے دو کالم لکھے تھے جن میں تفصیل سے بیان کیا گیا تھا کہ ججوں کی ایک کمیٹی نے SALAنامی ایک مقدمہ میں عدالت کی جانب سے کئے جانے والے ایک فیصلے کی اشاعت پر پابندی عائد کردی ہے۔ اس معاملہ کا پس منظر کچھ یوں ہے کہ برطانیہ میں تیس لاکھ کے لگ بھگ یورپی شہری موجود ہیں۔ یورپین قانون کے تحت یورپی شہریوں کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اگر کسی دوسرے یورپی ملک یعنی کہ برطانیہ میں آجاتے ہیں اور یہاں پر سکونت پذیر ہوجاتے ہیں تو وہ نہ صرف اپنے غیریورپی بیوی بچوں کو برطانیہ لاسکتے ہیں بلکہ اپنے زیرکفالت دیگر رشتہ داروں کو بھی یہاں لاکر انہیں یہاں کی سکونت دلوا سکتے ہیں۔ لیکن جیسا کہ اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں کے مصداق اس قانون کا ناجائز فائدہ اٹھایا جانے لگا۔ برطانیہ آکر آباد ہونے والے یورپی شہریوں نے یہاں آنے یا برطانیہ کی سکونت حاصل کرنے والے خواہشمند حضرات کی ’’مدد‘‘ کرتے ہوئے انہیں اپنے دور دراز کے رشتہ دار ظاہر کرتے ہوئے ان کے سکونت کے لئے درخواستیں دینا شروع کردیں۔ بدقسمتی سے ان درخواستوں کی ایک بڑی اکثریت ’’بوگس‘‘ تھی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا نہ برطانوی ہوم آفس نے ایسی درخواستیں مسترد کرنا شروع کردیں جن کے خلاف اپیل کرنے کا حق تھا اس لئے ایسی اپیلیں عدالتوں میں جانا شروع ہوگئیں۔ یہ اپیلیں امیگریشن کے فرسٹ ٹریبونل اور اپرٹربیونل میں کی جاسکتی تھیں۔ جب ان عدالتوں کے ججوں نے دیکھا کہ ایسی ’’بوگس‘‘ اپیلوں کی بھرمار ہوگئی ہے تو انہوں نے ایک فیصلہ کرلیا کہ یورپی شہریوں کے دوردراز کے رشتہ داروں کی سکونت کی درخواستیں مسترد ہونے کی صورت میں کسی اپیل کا حق نہیں ہوگا۔ اس فیصلےکے بعد ججوں کی جانب سے ایسی تمام اپیلوں کو مسترد کیا جانے لگا اس معاملہ پر تنازعہ کھڑا ہوگیا کہ ہوم آفس کی جانب سے یورپی شہریوں کے دوردراز کے رشتہ داروں کی سکونت کی درخواستیں مسترد ہونے کی صورت میں اپیل کا حق حاصل ہے یا نہیں۔ ہمارے اور دوسرے وکلاء کے خیال میں اپیل کا حق حاصل تھا کیونکہ ہوم آفس کی جانب سےکئے جانےوالے فیصلوں میں غلطی کا احتمال رہتا ہے۔ ہوم آفس کے کچھ انصاف پسند وکلاء کی بھی یہی رائے تھی۔ یہ معاملہ ہائی کورٹ میں گیا جہاں سے فیصلہ کیا گیا کہ برطانیہ میں اگر کسی یورپی شہری کے زیرکفالت کسی شخص جوکہ Extended Family Memberہو، کے برطانیہ میں رہنے کی درخواست مسترد ہوجاتی ہے تو ایسے شخص کو اس ضمن میں اپیل کا حق حاصل ’’نہیں‘‘ ہے اور اس طرح برطانوی ہوم آفس کا فیصلہ حتمی ہوتا ہے۔ ہائی کورٹ کے اس فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے راقم نے اپنے 9ستمبر2017ء کے کالم میں لکھا تھا کہ ’’راقم کے خیال میں ہائی کورٹ نے قانون کی جو تشریح کی ہے وہ درست نہیں ہے۔ اس فیصلے کے خلاف اب گزشتہ ہفتے برطانیہ کی ’’کورٹ آف اپیل‘‘ نے ہائی کورٹ کے SALAنامی معاملہ میں کئے جانے والے فیصلے کے خلاف اپیل منظور کرتے ہوئے اسے کالعدم قرار دیا ہے۔ برطانوی کورٹ آف اپیل (Court of Appeal)جو کہ ہائی کورٹ کی جانب سے کئے جانے والے فیصلوں کے خلاف اپیلوں کی سماعت اور شنوائی کرتی ہے کے اس فیصلے کے بعد ان ہزاروں لوگوں کو جن کی درخواستیں یا اپیلیں صرف اس بنیاد پر مسترد کردی گئی تھیں، اب موقع مل گیا ہے کہ وہ اب یا تو ہوم آفس کو نئی درخواستیں دیں اور اگر ایسی درخواست مسترد ہوجاتی ہے تو اب انہیں اس ضمن میں ہوم آفس کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا حق مل گیا ہے یا پھر اگر چاہیں تو براہ راست فرسٹ یا اپرٹربیونل میں بھی درخواست دے کر اپنی اپیل کو بحال کروا سکتے ہیں۔ ہوم آفس نے ابھی تک کوئی عندیہ نہیں دیا ہے کہ وہ کورٹ آف اپیل کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کرنا چاہیں گے یا پھر اس فیصلے کو تسلیم کرکے لوگوں کے بنیادی حق کی پاسداری کریں گے۔ اسی نوعیت کا ایک فیصلہ چند ہفتے قبل بھی آیا تھا لیکن اس کی اشاعت پر پابندی عائد کردی گئی تھی لیکن اب اس طرح کے معاملات کو زیادہ دیر تک خفیہ رکھنا ممکن نہیں رہا ہے اور سچ کو زیادہ دیر تک نہیں چھپایا جاسکتا ہے۔

تازہ ترین