• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سرخ انقلاب کے 100سال روزآشنائی… تنویرزمان خان:لندن

انقلاب روس یا انقلاب اکتوبر کو گذرے سو سال پورے ہوگئے۔ ان انقلاب کا ذکر کریں تو کارل مارکس، اینگلز، لینن ٹراٹسکی، میکسم گورکی، ٹالسٹائی، پوشکن، روز اکلثر مبرک وغیرہ جیسے سیکڑوں نام ذہن میں آنے لگتے ہیں۔1917ء کا انقلاب آج کل کی طرح کا محض چہرے اور حکومت تبدیل کرنے والا انقلاب نہیں تھا بلکہ اس نے دنیا سیاست، ادب، فلسفہ، کلچر اور سب سے اہم یہ کہ معیشت کو تبدیل کر دیا اور تبدیل کرنے کے اوزار Tools دنیا کو فرام کر دیئے۔ اس انقلاب میں پورا سسٹم اوپر کا نیچے اور نیچے کا اوپر ہوگیا۔ ذرائع پیداوار سے لوگوں کا رشتہ اور تعلق بدل گیا۔ پیداواری قوتوں کے کردار بدل گئے۔ تاریخ اور سوسائٹی کو دیکھنے کے سائنسی یا مارکسی طریقے عمل میں آگئے۔ توہمات اور فرضی کہانیوں سے ہٹ کر لوگوں کو مورخین اور عوام کو تاریخی مادیتHistorical Materialism کا مارکسی ہتھیار ملا۔ اسی طرح جدلیاتی مادیت Dialeclical Materialism نے ہر زمانے اور آج کے تضادات کو سمجھنے کی سائنسی اور اصولوں سے اپنے گرد و نواح کو سمجھنا آسان رہا۔ جسے آج تک نہ جھٹلایا جا سکا نہ ہی رد کیا جاسکا۔ یہ تمام اوزار لینن(جوکہ قائد انقلاب تھا) نے مارکسز سے لئے اور عملی طور پر دنیا کو ان قواعد کی تشریح کرکے دے دی۔ حق ملکیت اور جائیداد کی ذاتی ملکیت کے نئےتصورات مارکیٹ میں آگئے دنیا بھر کے مزدوروں نے سر اٹھا لیا۔ مزدوروں کی لاوارث تحریک کووارث مل گئے۔ کسانوں کو اپنی محنت کے اجر کا پتہ چل گیا۔ ورکنگ کلاس منظم ہونا شروع ہوگئی۔ دنیا بھر کی ورکنگ ماس کسی رنگ و نسل، علاقے یا مذہب سے بالاتر ہو کر محض اپنی محنت اور اشتراک مسائل پر تمام سرحدیں پھلانگتی ہوئی ایک آواز ہونا شروع ہوگئی۔ ٹریڈ یونین کو اپنی طاقت کا پتہ چل گیا۔ کمزور کو اپنی آواز اٹھانے کا سلیقہ اور اعتماد مل گیا۔ جس طرح جاگیرداری اور اس سے پہلے چلی آئی غلام داری دور کو سرمایہ داری نے تبدیل کیا۔ اس طرح اب بات آگے بڑھی اور سرمایہ داری میں چندہاتھوں میں ارتکاز کرتی دولت کے نظام کی جگہ سوشلسٹ نظام لینے لگا۔ سرمایہ داری کو اپنا بت گرتا ہوا نظر آنے لگا۔ امیر اور غریب کے مابین ملکیت کے فاصلے اور کم سے کم کرنے کی بات ہونے لگی یعنی امیر سے کچھ لو اورغریب کو دو۔ چند افراد کے پاس دولت کی لامتناہی ملکیت کاتصور چیلنج ہوگیا۔ میں آج اس مختصر کالم میں اس تمام تاریخ انقلاب کو کسی صورت نہیں سمو سکتا۔ تاہم مارکزم لینن ازم نے مجھے کیسے متاثر کیا۔ اس کا تھوڑا ذکر کیا جا سکتا ہے۔ میں نے اپنے زمانۂ طالبعلمی میں اسے سمجھنا شروع کیا۔ یہ مارکس ازم لینن ازم اصل میں ورکنگ کلاس کا بیانیہ ہے۔ انقلاب اکتوبر سوشلسٹ انقلاب تھا۔ جس نے سرمایہ داری نظام سے اگلابیانیہ قائم کیا۔ آج جب میں باآسانی دیکھ اور سمجھ سکتا ہوں۔ اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لئے سامراج اور سرمایہ دار، غریب ممالک میں جاگیرداری سیاست بھی قائم کرتا ہے اور کرپٹ بھی۔ مذہبی سیاست کو بھی درگزر کرتا ہے اور آمریتوں کو بھی بلکہ صرف ایسی بھی حکومتوں اور ریاستوں کی آبیاری کرتا ہے کیونکہ ایسی تمام سیاسیات سرمایہ داری اور سرمایہ دار کے مفادات کے لئے کسی قسم کا چیلنج نہیں بنتی۔ سرمایہ دار دنیا کے لئے اگر کوئی چیز چیلنج ہے تو وہ سوشلسٹ معیشت اور سوشلسٹ سیاست ہے۔ اسی لئے دہشت گردوں کو بھی معافی مل جاتی ہے۔ کرپٹ سیاست دانوں کو بھی۔ آمروں کو بھی اور ملائوں کو بھی۔ لیکن اگر بالکل برداشت نہیں ہو سکتی تو وہ سوشلسٹ سیاست ہے۔ اور سوشلسٹ نظریہ ہے۔ بلکہ سرمایہ داری کو انرجی ہی انہی جاگیرداروں، قبائلی سرداروں، بڑے بڑے ملٹی نیشنل بادشاہتوں اور غیر جمہوری قوتوں سے ملتی ہے۔ آج ہم یورپ اور امریکہ میں دیکھتے ہیں کہ پورا نظام ورکنگ کلاس اور غریب عوام کا نہیں بلکہ ذرائع پیداوار پر قابض مختصر طبقے کے مفادات کا تحفظ اور نگہبانی کرتا ہے۔ یہ سوشلسٹ نظریہ ہی ہے جس نے مزدور کو بتایا کہ دنیا میں اصل تبدیلی اسی کے ہاتھوں سے پیدا ہوتی ہے اور سرمایہ دار اسی کی محنت سے اپنی تجوریاں بدتا ہے۔ اس انقلاب نے انسانی نسلوں کو متاثر کیا اور مسلسل کئے جا رہا ہے۔ علامہ اقبال بھی لینن کے انقلاب اور نظریات سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ باب جبریل میں علامہ کی نظم ’’لینن خدا کے حضور میں‘‘ اسی بات کی آئینہ دار ہے۔ پاکستان میں بھی ستر کی دہائی ختم ہونے تک سوشلسٹ لٹریچر عام دستیاب تھا بلکہ اس زمانے میں نوجوان لینن کی چند کتب یا مائوزے تنگ کے چار والیم رکھنا فیشن اور ادائے دانش سمجھتے تھے۔ یورپ میں بھی ٹریڈ یونین کی سیاست انتہائی پاپولر تھی اور سوشلسٹ گروپ اور پارٹیاں اس موضوع پر عام مباحث کرتی تھیں۔ اب پھر سے جرمی کوربن کے آنے سے ازسر نو وہی مباحث پھر سے ڈرائنگ روم سے باہر آچکے ہیں۔ یہ پاکستان ہی ہے جہاں حکمران طبقات نے عوام کی دائیں بازو کی جانب برین واشنگ کردی ہے۔ یورپ میں جو ویلفیئر ریاست کا تصور رائج ہوا یہ دراصل انقلاب روس ہی کے پھیلائو کے خوف کے نتیجے میں ہوا اور سوشلسٹ نظریات نے ہی ان ترقی یافتہ ممالک میں بلارنگ و نسل و عقائد کہیں پھر بھی اور کسی کے ساتھ بھی حقوق انسانی کی خلاف ورزی پر آواز احتجاج بلند کرنا سکھایا۔ وگرنہ سرمایہ داری تو مزدور کا خون نچوڑنے سے ہی عبارت ہے۔ جہاں نصب العین صرف زیادہ سے زیادہ منافع کمانا ہے جبکہ آج سوشلزم ہی انسانیت اور برابری قائم کرنے کا ذریعہ ہے۔

تازہ ترین