• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چیف جسٹس سپریم کورٹ میاں ثاقب نثار نے گزشتہ روز ممتاز سیاسی شخصیات کے ایک اہم مقدمے کی سماعت کے دوران عدلیہ کے حوالے سے غیر محتاط رویوں پر گرفت کرتے ہوئے ان تمام عناصر کو جو ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں بجاطور پر متنبہ کیا ہے کہ وہ ہوش کے ناخن لیں کیونکہ عدلیہ کے خلاف اپنی پسند اور ناپسند کی بنیاد پر کسی بھی قسم کی مہم جوئی قومی مفادات کے صریحاً منافی ہے۔تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اور اسی جماعت کے مرکزی رہنما جہانگیر ترین کی عوامی عہدے کے لیے نااہلیت سے متعلق مقدمے کی سماعت کرنے والی تین رکنی بنچ کے سربراہی کرتے ہوئے جس کے دیگر ارکان میں جسٹس عطا محمد بندیال اور جسٹس فیصل عرب شامل ہیں، چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں مزید کہا کہ یہ ملک اور اس کے ادارے ہم سب کے ہیں، ان کا وقار ملحوظ رکھنا قومی فریضہ ہے۔چیف جسٹس نے اس امر کی وضاحت بھی کی کہ غلطیوں کی مثبت طور پر نشان دہی ٹھیک ہے مگر حدود سے تجاوز کرتے ہوئے اداروں کا تقدس پامال کرنا کسی طور درست نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ ارکان اسمبلی کی نااہلی کے لیے بے ایمانی کی نوعیت کا تعین کرنا ہوگا۔ عدالتی کارروائی جس قدر محتاط طور پر آگے بڑھائی جارہی ہے اس کی وضاحت کرتے ہوئے چیف جسٹس نے بتایا کہ وہ ٹی وی نہیں دیکھتے لیکن عدالت میں بیٹھے بعض دوست واٹس ایپ پر ایسی چیزیں بھیج دیتے ہیں جو ان کے موقف کے حق میں ہوتی ہیں۔ میڈیا پر عدالتی آبزرویشنوں کے حوالے سے کی جانے والی قیاس آرائیوں کے ضمن میں انہوں نے واضح کیا کہ دوران سماعت عدالتی آبزرویشنوں کا مقصد فیصلہ دینا نہیں بلکہ معاملات کو سمجھنا ہوتا ہے۔ بددیانتی کی تعریف کے حوالے سے ایک اخباری تجزیے کا ذکر کیا گیا تو چیف جسٹس نے کہا کہ میڈیا کی باتوں پر نہ جائیں،عدالت پر اعتبار کریں اور فیصلہ آپ کے خلاف بھی آئے تو اسے تسلیم کریں۔ان کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلوں پر نکتہ چینی سے پہلے انہیں پڑھ لینا چاہیے اور جائزہ لیناچاہیے کہ فیصلہ آپ کے خلاف کیوں آیا؟ان لوگوں کو بھی احتیاط سے کام لینا چاہئے جو عدالتی کارروائی میں ہوتے نہیں مگر وکیل اور جج کے درمیان ہونے والے مکالمے اور عدالتی آبزرویشنوں پر پورے پورے پروگرام کرڈالتے ہیں۔ شریف خاندان اور تحریک انصاف کے رہنماؤں کی اہلیت کے مقدمات کے حوالے سے چیف جسٹس نے وضاحت کی کہ ارکان پارلیمان کی تذلیل عدلیہ کا مقصد نہیں لیکن ان مقدمات میں ہم دیکھ رہے ہیں کہ کیا وہ ایسی بددیانتی کے مرتکب ہوئے ہیں جس کی وجہ سے آئین کی روسے نااہل قرار پاتے ہوں، اس لیے باریک بینی سے جائزہ لینا ضروری ہے۔ چیف جسٹس نے ان ریمارکس کے ذریعے سیاسی شخصیات کے خلاف موجودہ مقدمات کی نزاکتوں کو بخوبی واضح کردیا ہے۔ بلاشبہ عدلیہ کا کام کسی کی پسند اور ناپسند نہیں بلکہ آئین اور قانون کے مطابق فیصلے دینا ہے۔ لہٰذا تمام فریقوں اور میڈیا کے ارکان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی مرضی کے فیصلوں کے لیے عدالتی کارروائی پر کسی بھی شکل میں اثرا نداز ہو نے کی کوشش ہرگز نہ کریں۔ البتہ یہ حق بہرحال مقدمات کے تمام فریقوں کو حاصل ہونا چاہیے کہ اگر وہ محسوس کریں کہ ان کے ساتھ کہیں ناانصافی ہورہی ہے تو عدالتیں ان کا شکایات کا جائزہ لیں ، درست شکایت کا ازالہ کریں اور غلط ہونے کی صورت میں آئین اور قانون کی روشنی میں غلطی کو واضح کردیں۔ یہ مقدمات ہماری قومی زندگی پر بہت دور رس اثرات مرتب کریں گے لہٰذا ضروری ہے کہ ان میں نہ صرف یہ کہ مکمل انصاف ہو بلکہ پوری طرح ہوتا نظر بھی آئے اور کسی بھی فریق کی طرف سے اپنے خلاف انتقامی کارروائی کا تاثر دینے کی کوئی گنجائش باقی نہ رہنے پائے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ بلاامتیاز انصاف کے لیے دوسری بااثر اور طاقتور شخصیات کے خلاف آئین شکنی اور اہم سیاسی رہنماؤں کے قتل جیسے سنگین الزامات میں زیر التواء مقدمات بھی زیر سماعت لاکر منطقی انجام تک پہنچائے جائیں تاکہ عدالتوں کی غیرجانبداری اور آزادی پر شکوک و شبہات کا کوئی سایہ نہ پڑنے پائے۔

تازہ ترین