• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک میں عام استعمال،خصوصاً پینے کے پانی کی کمیابی کا مسئلہ تو تھا ہی، جو پانی دستیاب ہے، لیبارٹری تجزیوں کے مطابق وہ بھی جراثیمی اور کیمیائی طور پر آلودہ ہونے کی وجہ سے بتدریج ناقابل استعمال ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان کے آبی وسائل کی تحقیقاتی کونسل کی ایک رپورٹ کے مطابق بلوچستان کے ضلع چاغی کی تحصیل نوکنڈی اور ضلع بولان کے علاقہ مچھ کی آبادیوں میں فراہم کئے جانے والے پانی کا کوئٹہ کی واٹر کوالٹی لیبارٹری میں تجزیہ کرایا گیا تو وہ سو فیصد آلودہ اور انسانی صحت کے لئے انتہائی مضر نکلا اور اسے پینے کے لئے غیر محفوظ قرار دیا گیا۔ نوکنڈی میں پانی 95کلو میٹر دور کنوئؤں سے پمپ کرکے خستہ حال پائپ لائنوں کے ذریعے زمینی ٹینکوں میں جمع کرکے لوگوں کو سپلائی کیا جاتا ہے۔ یہی حال مچھ کا ہے تحقیقاتی کونسل نے ان علاقوں کے پانی کا تجزیہ کرایا تو وہ ناقابل استعمال نکلا لیبارٹری ٹیسٹ کرائے جائیں تو بلوچستان کیا پورے ملک کے اکثر علاقوں میں فراہم کیا جانے والا پانی پینے کے قابل نہیں نکلے گا۔ بلوچستان کے شہری اور دیہی علاقوں میں پینے کے پانی کا معیار نہایت ناقص ہے۔ سندھ میں صورتحال اس سے بھی زیادہ خراب ہے۔ تھر کے ریگستانی علاقے میں تو پانی سرے سے نایاب ہے۔ انسان اورحیوان ایک ہی طرح کے جوہڑ سے پانی استعمال کرتے ہیں پنجاب کے بڑے بڑے شہروں کو جو پانی فراہم کیا جا رہا ہے وہ بھی سوفیصد صاف نہیں۔ کئی مقامات پر پائپ لائنوں میں کیمیکلز اور انسانی فضلے کی آمیزش پائی گئی ہے۔ یہ پانی نہ عام استعمال کے لئے پاک اورصاف ہے، نہ پینے کے قابل۔ جس کی وجہ سے طرح طرح کی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ وفاقی اورصوبائی حکومتوں کو چاہئے کہ اس صورت حال کا تدارک کریں اور پانی کے سرچشموں اور فراہمی کے ذرائع کے معیاری ہونے کو یقینی بنائیں۔ ملک میں زیر زمین پانی کی سطح ویسے بھی کم ہورہی ہے جس سے آنے والے دور میں مزید مشکلات پیدا ہوں گی۔ اس لئے ضروری ہے کہ نہ صرف پانی کی دستیابی پر توجہ دی جائے بلکہ اسے آلودگی سے بھی بچایا جائے اور عوام کو صاف و شفاف پانی فراہم کیا جائے۔

تازہ ترین