برآمدات میں مسلسل کمی اور درآمدات میں گزشتہ برسوں کے دوران ہونے والے غیر معمولی اضافے سے ملک کو 32.6 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کا جو سامنا ہے اس کے پیش نظر ایک ماہ میں حکومت کو دو بار اشیائے تعیش اور خورد و نوش سمیت بعض دیگر آئٹمز پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں50فیصد تک اضافہ کرنے کے بعد اب تیسری بار ایک اور بڑا قدم اٹھانا پڑا ہے جس کے تحت چھ ہزار میں سے1000 سے 1500تک اشیاء کی درآمدات میں کمی لانے اور نان ٹیرف بیریئرز کی حکمت عملی کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے جس سے2سے3 ارب ڈالر تک سالانہ درآمدی بل میں کمی واقع ہو گی۔ اس کے علاوہ پاک چین آزادانہ تجارتی معاہدے کے تحت چین سے درآمد کی جانے والی ان تمام اشیاء پر ریگولیٹری ڈیوٹی عائد کردی گئی ہے جو گزشتہ برسوں میں عائد نہیں تھی۔ ان میں الیکٹرانکس، سرامکس کا سامان اور کاسمیٹکس شامل ہیں۔ اگرچہ حکومت کے ان اقدامات سے تجارتی خسارہ کم کرنے میں مدد مل سکے گی تاہم دوسرا بڑا مسئلہ برآمدات میں بتدریج کمی کا ہے حکومت نے اس سلسلے میں حال ہی میں بعض اچھے فیصلے بھی کئے ہیں تاہم ان تمام اقدامات کو مانیٹر کرنے کے ساتھ مزید سوچ بچار کی ضرورت ہے۔ اس ضمن میں ایک اور پیش رفت یہ ہے کہ سٹیٹ بینک کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ برآمدکنندگان کے بینکوں کے کلیم48گھنٹے کے اندر کلیئر کرے گا اور کلیم جمع کرانے اور اس کی تصدیق کے لیے 15دن سے زیادہ کا وقت نہیں لیا جائے گا۔ جہاں تک 1000 سے 1500اشیاء کی درآمدات میں کمی لانے کے فیصلے کا تعلق ہے اسے ہرصورت میں موثر بنانے کی ضرورت ہے جس کے لیے سمگلنگ کو ہر حال میں روکنا ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ متاثرہ درآمد کنندگان کو برآمدات کی طرف لانے کے لیے انہیں ترغیبات دینا ہوں گی برآمدی تجارت میں اضافہ اور درآمدات میں کمی ہی مسئلے کا حل ہے۔