• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اس وقت ساز ش کی سربلند تھیوری یہ ہے کہ ٹیکنوکریٹس کی حکومت قائم ہونے جارہی ہے ۔ اسے بنگلہ دیش ماڈل کی طرز پر قائم کیا جائے گا۔ بنگلہ دیش ماڈل میں غیر منتخب شدہ ادارے ناگہانی حالات میں آگے قدم بڑھاتے ہوئے آسمان کو گرنے سے بچاتے ہیں۔ بدعنوان اور نااہل سیاست دانوں کی وجہ سے آسمان گرنے کے خطرے سے دوچار رہتا ہے ۔ صاف الفاظ میں آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ایک طرح کا شب خون ہی ہوتا ہے ۔ جمہوری حکومت کی جگہ ماہرین کی حکومت قائم کرکے عام انتخابات کا انعقاد التوا میں ڈال دیا جاتا ہے ۔اس ’’حسن انتخاب ‘‘ پر عدلیہ مہر تصدیق ثبت کردیتی ہے ۔ اس کے بعد نہایت طمانیت سے نظام کی صفائی کرتے ہوئے اسے جمہوریت کے لئے ’’محفوظ ‘‘ بنایا جاتا ہے ۔ اور ایسے نازک امور میں وقت تو درکار ہوتا ہے مبادا جلدبازی میں کام خراب ہوجائے ۔
جاوید ہاشمی نے دھرنانمبر 1 کے دوران ایسے کسی منصوبے کا انکشاف کیا تھا ۔ چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے انتخابی دھاندلی کا کیس تھا۔ سپریم کورٹ نے یہ کہتے ہوئے دعوے کو مسترد کردیا کہ 2013 ء کے عام انتخابات کو چرانے (جیسا کہ الزام تھا) کے لئے منظم دھاندلی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ چونکہ بنگلہ دیش ماڈل کے لئے عدلیہ کی توثیق ضروری ہوتی ہے ، اس لئے سازش کی تھیوریاں دم توڑگئیں، اور اسی طرح دھرنا نمبر 1بھی ۔ تاہم اب اس تھیوری کو ردی کی ٹوکری سے نکال کر، جھاڑ پونچھ کر پھر سے پیش کیا جارہا ہے ۔ حتیٰ کہ وزیر ِاعظم عباسی کو بھی کہنا پڑا کہ ٹیکنوکریٹس کی حکومت پاکستان کے مسائل کا حل نہیں ۔
ہمارے آئین کی کوئی شق بنگلہ دیشی ماڈل کی اجازت نہیں دیتی ۔ لیکن اس کی اجازت تو بنگلہ دیش کا آئین بھی نہیں دیتا تھا،جہاں اس نے جنم لیا اورپھر پاکستان کے تمام مارشل لائوں کی طرح اپنے اعلانیہ اہداف کے حصول میں ناکام رہا ۔ لیکن فرض کرتے ہیں کہ ہم نے اپنی تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا ، اور نہ ہی بنگلہ دیش کی ناکامی نے ہمیں کچھ سبق سکھایا ہے ،اورواقعی ایک سازش کی جارہی ہے تاکہ سیاست دانوں کے ہاتھ سے اختیار لے کر ماہرین کے ہاتھوں میں تھما دیا جائے، تو ایسا کس طرح ہوگا۔
مردم شماری کے بہت سے اہم مقاصد ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ آبادی کو شمار کرتے ہوئے وفاق کی اکائیوں میں نشستوں کی تقسیم عمل میں آتی ہے ، اور نئی حلقہ بندیاں کی جاتی ہیں۔ 1998 ء کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی آبادی 135 ملین تھی ۔ 2017 ء کی مردم شماری پاکستان کی آبادی 208 ملین گنتی ہے ۔ اگر 2018 ء کے عام انتخابات 1998 کی مردم شماری کے تحت ہونے والی حلقہ بندیوں کے مطابق ہوتے ہیں تو ایسے انتخابات کو آئینی چیلنج کا سامنا ہوگا۔ جمہوریت میں’’ایک شخص، ایک ووٹ ‘‘ کا اصول سیاسی اور قانونی مساوات کو یقینی بناتا ہے ۔ ایک وفاقی اکائی کو اپنی آبادی کی نسبت سے پارلیمان میں نمائندگی حاصل ہوتی ہے ۔ 2017 ء کی مردم شماری کے ابتدائی نتائج کے مطابق پاکستان میں پنجاب کی مجموعی آبادی کم ہوگئی ہے ۔ اس تناسب سے پارلیمان میں پنجاب کے لئے مختص کی جانے والی نشستوں کی تعداد بھی کم ہوجانی چاہئے ۔
حلقہ بندیوں کا سائز بھی اتنا ہوناچاہئے جس میں شہریوں کے ڈالے گئے ووٹ اور ان کے حقوق کے درمیان توازن موجود ہو۔ اگر ایک لاکھ شہریوں پر مشتمل حلقہ A ایک نمائندے کو منتخب کرتا ہے ، اور حلقہ B کے شہریوں کی تعداد دولاکھ ہے تو لازمی طور پر حلقہ B کے ووٹر اپنی سیاسی طاقت کو کمزور پائیں گے ۔ حلقہ بندیوں کے عمل کی درست نگرانی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ نئی حدود کھینچتے ہوئے کسی گروہ کے ووٹ کو مصنوعی اہمیت دے کر وزنی، یا اس کے برعکس، ہلکااور بے معانی نہ بنا دیا جائے ۔ حتمی بات یہ ہے کہ 2018 ء کے عام انتخابات کا انعقاد 1998 ء کی مردم شماری کے مطابق کرانے کا مطلب یہ ہوگا کہ مختلف دھڑے ان کے نتائج ماننے سے انکار کرتے ہوئے اگلی منتخب شدہ حکومت کو انتقال ِ اقتدار مشکل بنا دیں گے ۔اور اگر عا م انتخابات کا انعقاد 2017 ء کی مردم شماری کے مطابق کرانا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم لیٹ ہورہے ہیں۔
آئین کا آرٹیکل 51(3) قومی اسمبلی کی 332 نشستوں کو وفاقی اکائیوں میں تقسیم کرتا ہے۔ اقلیتی برادری کی دس مخصوص نشستیں اس کے علاوہ ہیں۔ آرٹیکل 51(5) کہتاہے ۔۔۔’’قومی اسمبلی کی نشستیںوفاقی اکائیاں، وفاقی دارالحکومت اور فاٹا کو گزشتہ مردم شماری کے شائع شدہ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق مختص کی جائیں گی۔‘‘میڈیا کی توجہ کا ارتکاز اس وقت ’’سرکاری طور پر شائع شدہ ‘‘ اعدادوشمار پر ہے۔ لیکن کیا 2017 ء کی مردم شماری کے مطابق نشستوں کو مختص کیا جاسکتا ہے ، چاہے اس کے اعداد وشمار سرکاری طور پر شائع ہی کیوں نہ کردئیے گئے ہوں؟کیا اس کے لئے آرٹیکل51(3) میں ترمیم درکار نہیں ہوگی؟ آرٹیکل 51(5) یہ نہیں کہتا ہے کہ یہ 51(3) کو نظر اندازکردے گا۔ 51(3) یہ نہیں کہتا کہ 51(5) کے تحت حلقہ بندیاں خود بخودہوجائیں گی ۔آئینی کی تحریر میں یہ خلا موجود ہے ۔ اس کے حل کے لئے عدالت کی مداخلت درکار ہوگی، ورنہ کوئی بھی اس کا منفی استعمال کرسکتا ہے ۔
اب الیکشن ایکٹ 2017 کا ذکر کرتے ہوئے ماضی کی طرف چلتے ہیں۔ سیکشن 14 کہتا ہے کہ ’’الیکشن کمیشن آف پاکستان کے لئے ضروری ہے کہ وہ عام انتخابات سے کم از کم چار ماہ پہلے وہ جامع ایکشن پلان طے کرے جس میں تمام قانونی اور انتظامی امور شامل ہوں جو عام انتخابات کے لئے ضروری ہوں۔ ‘‘ ان تیاریوں میں ’’نئی حلقہ بندیاں ‘‘، ’’انتخابی فہرستوں پر نظرثانی‘‘ ، ’’ ہر حلقے کے پولنگ اسٹیشنز کی فہرستیں ‘‘وغیرہ بھی شامل ہیں۔
اگر الیکشن 2018 ء کا انعقاد پانچ اگست تک ہونا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ یہ الیکشن پلان اپریل تک طے پانا ضروری ہے ۔ سیکشن 17(2) الیکشن کمیشن کو اختیار دیتا ہے کہ وہ ہر مردم شماری کے نتائج کی اشاعت کے بعد نئی حلقہ بندیاں یقینی بنائے ۔ اگر ایسی حلقہ بندیوں کو مردم شماری کے ابتدائی نتائج کی روشنی میں طے کیا جائے تو سیکشن 17(2) اور آرٹیکل 51(5) میں ترمیم ضروری ہوگی ۔ ایسی ترمیم ، یاپھر مردم شماری کے سرکاری نتائج کی اشاعت کے بعد الیکشن کمیشن انکوائری کرتا ہے، گواہو ں کو طلب کرتا ہے اور ریکارڈ دیکھتا ہے اور پھر حلقہ بندیوں کی ابتدائی فہرست شائع کرتا ہے ۔ حلقہ بندیوں کی ابتدائی اشاعت کے بعد تیس روز کا وقت دیا جاتا ہے تاکہ عوامی نمائندوں کی رائے سامنے آجائے۔ اس کے بعد حتمی رپورٹ شائع کی جاتی ہے ۔ دوسرے الفاظ میں اگر الیکشن کمیشن طلسمی طاقت رکھتے ہوئے دن رات کام کرے تو کہیں جاکر وہ مردم شماری کے حتمی نتائج ملنے کے ایک ماہ بعد حلقہ بندیوں کی ابتدائی اور دوماہ بعد حتمی رپورٹ شائع کرنے کے قابل ہوسکتاہے ۔
اس کے بعد انتخابی فہرستوں کا معاملہ ہے ۔ یہ فہرستیں اُس وقت مکمل ہوسکتی ہیں جب پہلے حلقہ بندیوں کا عمل مکمل ہوجائے ۔ الیکشن ایکٹ کے سیکشنز 35,34,30,28 کے تحت الیکشن کمیشن ابتدائی انتخابی فہرستیں تیس روز کے لئے جاری کرتا ہے ۔ تیس روز شکایات کے لئے رکھے جاتے ہیں۔اس کے بعد تیس روز کے اندر اندر ان شکایات کو رفع کیا جاتا ہے اور حتمی فہرستیں شائع کی جاتی ہیں۔ ان ٹائم لائنز کو دیکھتے ہوئے الیکشن کمیشن کو حلقہ بندیوں کے بعد حتمی فہرستوں کی اشاعت کے لئے تین ماہ درکارہوتے ہیں۔ اورضروری ہے کہ یہ سب کچھ پانچ اپریل تک مکمل ہوجائے ۔
فرض کریں اپریل کی ڈیڈلائن لازمی نہیں عبوری ہے ۔ سیکشن 39 کہتا ہے کہ اسمبلی کی مدت ختم ہونے سے تیس دن پہلے کسی انتخابی فہرست کو تبدیل نہیں کیا جائے گا۔ اس کے لئے پانچ مئی 2018 حتمی تاریخ ہوسکتی ہے ۔ مختصر یہ کہ اگر الیکشن کمیشن پانچ نومبر کو حلقہ بندیوں کا عمل شروع کرتا ہے تو پانچ مئی تک یہ عمل مکمل ہوسکے گا۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر ہم مردم شماری کے ابتدائی نتائج کے مطابق حلقہ بندیاں کرنا چاہتے ہیںتو ہمارے پاس صرف دوہفتے باقی بچے ہیں جن میں آرٹیکل 51کا ابہام دورکرنا اور آرٹیکل 51(5) اور سیکشن 17 میں ترمیم کی جانی ہے ۔
الیکشن کمیشن کے لئے ضروری ہے کہ وہ حالیہ مردم شماری کے مطابق حلقہ بندیاں کرے ۔ موجودہ اسمبلیوں کی آئینی مدت پانچ جون کو ختم ہونے جارہی ہے ۔ اگر حلقہ بندیاں اور انتخابی فہرستیں 2017کی مردم شماری کے مطابق نہ ہولئےئیں تو ساٹھ روز کے اندر انتخابات ممکن نہ ہوں گے ۔ آئین کا آرٹیکل 254 کہتا ہے ۔۔۔’’جب کوئی کام کسی مخصوص مدت کے اندر کرنا ہوتو اسے اسی مدت کے اندر کرنا ہوتا ہے وگرنہ اس کی فعالیت کالعدم تصور ہوگی ۔ ‘‘ہم کہہ سکتے ہیں کہ 2018 ء کے عام انتخابات کا 1998 ء کی مردم شماری کے مطابق انعقاد یا 2017 ء کی مردم شماری کے مطابق انعقاد کرانے کے لئے ضروری انتظامی اور آئینی اقدمات سے گریز کا مطلب بنگلہ دیشی ماڈل کا نفاذ ہی ہوگا۔ اس لئے سازش ،سازش کی دہائی دینے والے سیاست دانوں کے ہاتھ سے وقت نکلا جارہا ہے۔

تازہ ترین