• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسٹر ٹرمپ، کیا آپ کی دہشتگردی کی جنگ کیپٹن حسین کو اُس کے روتے ہوئے بیٹے کو واپس لوٹا سکتی ہے ؟
ہم پر مسلط کی گئی دہشت گردی کی جنگ کے نتیجے میں پاکستان میں یتیم ہونے والے بچوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے ۔ بچے اپنے والد کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے گھروں کی دہلیز پر کھڑے رہتے ہیں لیکن اُن میں سے زیادہ تر اپنے والد کو کبھی نہیں دیکھ سکیں گے ۔ اس حقیقت کے باوجود کہ پاکستان کے بہت سے فوجیوں نے اس جنگ میںاپنی جان قربان کی ہے اور ان کے بچے والد کی شفقت ، محبت اور توجہ سے محروم ہوگئے ہیں لیکن امریکہ ابھی تک ہم سے ’’ڈو مور ‘‘ کا مطالبہ کررہا ہے ۔ مجھے یہ کہتے ہوئے بہت دکھ ہوتا ہے کہ اُن بچوں کی آہ وزاری، جو اپنے والد، بلکہ اپنی زندگی کے ہیروز کو کھو چکے ہیں، کا دہشت گردی کی اس جنگ پر کوئی اثر دکھائی نہیں دیتا۔ ستم یہ ہے کہ یہ ہماری جنگ تھی بھی نہیں۔
کیپٹن حسین نواز کی اپنی بیوی اور چھوٹے بچے کے ساتھ تصویر دیکھ کر میرے جذبات قابو میں نہ رہے ۔ کیپٹن حسین نواز نے خطرات، موت کے پھندے اور زندگی کی بے یقینی پن سے عبارت اس پیشے کا انتخاب کرتے ہوئے اپنی جان اس سرزمین کے سپر د کردی ۔ میں اب اُن کے بیٹے کے لیے بہت پریشان ہوںکیونکہ اپنے باپ کے بغیر اب اُس کا کیا مستقبل ہے ، اور نوجوان بیوہ اپنے شوہر کے بغیر کیسے زندگی کے دن پورے کرے گی؟
زیادہ تر درمیانی طبقے کے نوجوان مسلح افواج میں شمولیت اختیار کرتے ہیں۔ فوج میں کمیشن حاصل کرنا نہ صرف اُن کے لیے بلکہ اُن کے خاندان اور اہل ِ علاقہ کے لیے ایک اعزازہوتا ہے ۔ وہ اس پر ناز کرتے ہیں۔جو بھی ہو، اب کیپٹن حسین نواز بطور باپ اپنے بیٹے کو کبھی نظر نہیں آئیں گے ۔ نہ وہ اُسے اسکول چھوڑنے جائیں گے ، نہ اُس کی کامیابیوں پر اُسے گلے لگائیں گے ، اس چھوٹے لڑکے کی آنکھیں اپنے باپ کو دیکھنے کے لیے ترس جائیں گی۔ کیپٹن حسین کی شہادت اس خاندان کی مشکلات کا نہ بند ہونے والا دروازہ کھولتی ہے۔ یہ خاندان ان مشکلات سے اکیلے نبرد آزما نہیں ہوسکتا۔
قومی سطح پر ایسے نظام کی ضرورت ہے جو ایسے خاندانوں کی مدد کرسکے ۔ میں یہ سوال اپنی حکومت کے سامنے رکھتا ہوں کہ ایسے خاندانوں کی معائونت کے لیے کس قسم کا نظام موجود ہے ؟جب کوئی خاندان اپنے کسی پیارے کو اس جنگ میں کھو دیتاہے تو ہمارے پاس اس کے درد کا درماں کرنے کے لیے کیا لائحہ عمل ہوتاہے ؟اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلح افواج اپنے طے شدہ نظام کی حدود کے اندر اس خاندان کو بہترین امدادی پیکیج دیں گی۔ تاہم میری تشویش کا باعث وفاقی حکومت کا کردار ہے ۔ کیا حکومت نے کسی ایسے منصوبے پر غور کیا ہے کہ فوجی عہدوں سے قطع نظر، شہدا کے بچوںکوامدادی پیکیج فراہم کیا جائے ؟ موجودہ مالیاتی پیکیج کافی نہیں ۔ وفاقی سطح پر ایسا کوئی بجٹ موجود نہیں جس کے ذریعے پاکستانی شہدا کے بچوں کی مدد کی جاسکے ۔
ضروری ہے کہ حکومت شہدا کے بچوں کی فلاح و بہبود، تعلیم اور کفالت کے لیے بجٹ مختص کرے ۔ صرف دکھ کا اظہار کرنے اور بیانات دینے سے ان خاندانوں کی کفالت نہیں ہوگی۔ انہیں زندگی کی راہوں پر واپس آنے کے لیے نظام اور معاشرے کا تعاون درکار ہے ۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اُنہیں کم از کم طمانیت تو ہوگی کہ اس دکھ کی گھڑی میں قوم اُن کے ساتھ کھڑی ہے اور اُن کے بیٹوں، بھائیوں اور والد کی قربانی کو بھلایا نہیں گیا ہے ۔ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اُنہیں احساس دلائیں کہ قوم اُنہیں یاد رکھے ہوئے ہے، اور قوم کے تحفظ اور خوشحالی کے لیے اُن کے عزیزوں کی دی جانے والی قربانی کوکبھی فراموش نہیں کیا جائے گا۔
ہم پر مسلط کی جانے والی یہ جنگ ہر آن ہمارے معاشرے کو متاثر کررہی ہے۔ہم مسلسل اذیت برداشت کررہے ہیں اور کوئی نہیں جانتا کہ ہم کب تک اپنے پیاروں کی لاشیں اٹھاتے اور سبز پرچم میں لپٹے تابوت دفناتے رہیں گے ۔ ہم اس دشمن کے خلاف لڑ رہے ہیں جوہمارے درمیان ہی موجود ہے ۔ اُس کی شکل و شباہت، خوراک، زبان ، اٹھنا بیٹھنا اور زندگی کے دیگر معمولات ہمارے جیسے ہی ہیں۔ وہ ہمارے معاشرے کا فعال رکن ہے ۔ طالبان کسی دوسرے سیارے کی مخلوق نہیں، وہ اس ملک میں پیدا ہوئے تھے، اُنھوں نے بھی اسی قوم کے آزاد شہریوں کی طرح آنکھ کھولی تھی، لیکن پھر اُنھوں نے اس قوم اور ملک کو دھوکہ دیا۔ فرض کیا جاتا تھا کہ وہ اس ملک سے وفا کریں گے، وہ اس کے مفادات کا خیال رکھیں گے لیکن پاکستان جنہیں تحفظ دے رہا ہے ، وہ اپنے غیر ملکی آقائوں کے ایجنڈے پر عمل کرتے ہوئے اس کے شہریوں کو ہلاک کررہے ہیں۔ طالبان، میں تم سے پوچھتا ہوں کہ کیا تمہارے دل میں خدا کا کوئی خوف ہے ؟ کیا تم انسانیت کا کوئی احساس رکھتے ہو؟اگر کیپٹن حسین کا بیٹا غمزدہ ہے ، اگر وہ بیچارہ لڑکا اب یتیم ہے تو اس کی وجہ تم ہو، صرف تم۔ کون سے نظریات ہیں جن پر تم عمل کرتے ہوئے دہشت گردی کی کارروائیاں کررہے ہو؟آخر میں، میں امریکہ سے بھی سوال کرتا ہوںجو گزشتہ چند ایک عشروں سے پاکستان سے مزید فعالیت دکھانے ، ’’ڈو مور ‘‘ کا مطالبہ کررہا ہے ۔ کیا عالمی برادری نہیں دیکھ سکتی کہ ہماری مسلح افواج ہمہ وقت اپنی سرزمین کے تحفظ کے لیے جنگ کررہی ہیں؟ تو پھر امریکہ کس برتے پر ہمیں مورد ِ الزام ٹھہرارہاہے کہ ہم دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے کافی کچھ نہیں کررہے ؟یہ چھوٹا لڑکا ، جو اپنے والد کی شفقت سے ہمیشہ کے لیے محروم ہوگیا ہے ، عالمی برادری ، خاص طور پر ڈونلڈ ٹرمپ سے سوال کرتا ہے ۔ وہ زبان ِحال سے پوچھ ہے کہ ’’انکل، کیا آپ نہیں دیکھ سکتے کہ دہشت گردی کی اس عالمی جنگ میں میرے والد اور میرے خاندان نے کیا قربانی دی ہے ؟کیا میرے والد نے دہشت گردوں کا مقابلہ کرتے ہوئے جام شہادت نوش نہیں کیا ؟کیا آپ ، یا دنیا کی کوئی اور طاقت میرے والد کو واپس لوٹا سکتی ہے ؟مجھ جیسے بہت سے بچے اپنے والد کی راہ تک رہے ہیں کہ وہ کب گھر آئیں گے، لیکن وہ کبھی واپس نہیں آئیں گے ۔ ہماری زندگی کبھی بھی پہلے جیسی نہیں ہوپائے گی۔ ‘‘ میں پوری استقامت سے اس بات پر زور دیتا ہوں کہ ہمیں بطور قوم شہدا کے بچوں کے سر پر ہاتھ رکھنا ہوگا، ہم پر ان کی سرپرستی قرض ہے ۔ شہدا کو دیے جانے والے عام پیکیج نہ تو کافی ہیں اور نہ ہی یہ ہمارے بہادر ہیروز کی قربانیوں کے شایان ِ شان ہیں۔ اُن کے بچوں کو منظم طریقے سے خوراک، پناہ، تعلیم اور ،مناسب نگہداشت کی ضرورت ہے ۔ایسا صرف اس صورت میں ممکن ہوگا جب حکومت ان بچوں کے سر پر دست ِ شفقت رکھے گی۔ میں پرزور مطالبہ کرتا ہوں کہ بجٹ میں ان شہداکا حصہ ہونا چاہیے تاکہ ان کے اہل ِ خانہ خود کو حالات کے رحم وکرم پر محسوس نہ کریںاور اپنے قدموں پر کھڑے ہوکر اس معاشرے کا فعال حصہ بن سکیں۔

تازہ ترین