• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی منظر نامہ ،ڈی ایٹ کے بیشتر ممالک داخلی انتشار،عدم تعاون کا شکار

اسلام آباد (طاہر خلیل)وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے درست نشاندہی کی کہ ڈی ایٹ کے رکن ملکوں کو باہمی تعاون کے فروغ پر توجہ دینی چاہیےاستنبول میں تین مختلف براعظموں میں پھیلے 8اسلامی ملکوں کی تنظیم ڈی ۔ایٹ کی سربراہی کانفرنس ایک ایسے ماحول میں منعقد ہورہی ہے جب اس تنظیم میں شامل بیشتر ممالک داخلی انتشار اور بین الاقوامی سیاسیات کے وسیلے سے باہمی عدم تعاون کا شکار ہیں یہ روح فرساحقیقت ہے کہ مسلمان معاشروں میں غربت ، محرومیوں اور استحصال کی مختلف صورتوں کے خاتمے اور باہمی تعاون و اتحاد کے فروغ کیلئے قائم کم وبیش تمام سیاسی تنظیمیں غیر فعال ہیں۔ مشرق وسطیٰ میں یمن کے تنازعے اور دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کے طریق کار پر خلیجی ریاستوں میں اختلاف نے بگاڑ کی ایسی صورت پیدا کی کہ 9خلیجی ملکوں نے قطر سے سیاسی تعلقات ہی توڑ لیے۔ اوآئی سی اپنی غیر فعالیت کی وجہ سے بے اثر ہو چکی ہے ۔ عرب لیگ ، خلیج تعاون کونسل اور وسط ایشیائی ریاستوں کی تنظیم ایکو کی سرگرمیاں بھی قراردادوں اور سالانہ اجلاس سے زیادہ نہیں۔ ڈی ایٹ کے قیام کو 20برس کا عرصہ گزر چکا ۔مگر زراعت ، صنعت ، تجارت ، سیاحت ، انرجی ، ٹرانسپورٹ اور دیگر شعبوں میں باہمی تعاون نہ ہونے کے برابر ہے ۔ خطاب میں وزیر اعظم شاہد عباسی کا کہنا تھا کہ ڈی ۔ ایٹ تنظیم کے اہداف کے حصول کےلئے رکن ملکوں کو باہمی تعاون مضبوط بنانا ہوگا۔ لیکن اسلامی ملکوں کی تنظیم بھر پور ترقی کی طر ف تیز رفتار سفر جاری رکھنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ۔ اسکی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ابھری ہوئی معیشتوں کی اس تنظیم کے بیشتر رکن ممالک داخلی انتشار کا شکار ہیں۔ مصر میں اخوان المسلمین کے خلاف جنرل فتح الیسی کی کارروائیاں ، بنگلہ دیش میں 40سال پرانے مقدمے کھول کر پاکستان نوازی کے الزام میں جماعت اسلامی اور دیگر پارٹیوں سے وابستہ سیاستدانوں کی پھانسیاں ، ترکی میں صدر اردوان کا تختہ الٹنے کی باغیوں کی ناکام شورش کے بعد (ایف ٹی او)فتح اللہ ٹیررسٹ آرگنائزیشن سے وابستہ افراد کے خلاف جاری اپریشنز اور پاکستان میں حکمران جماعت کے سربراہ اور خاندان کے خلاف عدالتی مقدموں سے حکومت اور اپوزیشن کے مابین چیف جسٹس کے بقول عدلیہ کے خلاف جاری مہم نے ڈی ایٹ کے ملکوں کے داخلی استحکام کو کمزور کیا ہے ۔ داخلی آزمائشوں نے ڈی ایٹ کے رکن ملکوں کی توجہ اقتصادی ترقی اور عام آدمی کو سہولتوں کی فراہمی کے ایجنڈے سے ہٹا کر داخلی انتشار میں الجھا رکھاہے ۔ یہ وہ کیفیت ہے جس میں ایک ارب سے زائد آبادی ، دنیا کے بہترین قدرتی وسائل سے مالامال ڈی ایٹ کے ان ملکوں کی قیادتیں اپنی صلاحیتیں باہمی تعاون کو فروغ دے کر خطے کی آبادی کےلئے بہتر سہولتوں کی فراہمی پر صرف نہیں کر رہی ہیں۔ اسلامی معاشروں میں غربت کے بعد سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی کا ہے جس وجہ سے مغرب میں اسلام کا تشخص ہی بگاڑ دیا گیا ہے ۔ ایسے میں ڈی ایٹ سمیت تمام اسلامی تنظیموں کیلئے یہ کڑی آزمائش کا دور ہے ۔ ان کےلئے یہ وقت قیام ہے کہ سینہ تان کر اور ڈٹ کر دہشت گردی کی حامی قوتوں کا یکسوئی سے مقابلہ کرکے انہیں شکست فاش دی جائے ۔ خطے میں امن اور سلامتی کے قیام کا خواب اس وقت تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا جب تک ڈی ایٹ سمیت اسلامی تنظیمیں متحد ہو کر دہشت گردی کے عفریت کا مقابلہ نہیں کرتیں ۔یہی وہ کیفیت ہے جسے شاعر مشرق نے اپنے شکوہ میں کچھ یوں پیش کیا تھا ۔ وہ ناداں گرگئے سجدے میں جب وقت قیام آیا۔
تازہ ترین