• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آبادی میں اسلحہ ڈپو انسانی زندگیوں کیلئے مستقل خطرہ ہیں، باہر منتقل کئےجائیں،لاہور ہائیکورٹ

Todays Print

راولپنڈی،لاہور(نمائندگان جنگ)لاہور ہائیکورٹ نے ٹھوکر نیاز بیگ لاہور سے اسلحہ ڈپو منتقل کرنے کیلئے ایک سال کی مہلت دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ اس قسم کے اسلحہ ڈپو انسانی آبادیوں سے باہر منتقل کئے جانے چاہیں۔انسانی آبادیوں کے اندر اسلحہ ڈپوئوں کی موجودگی انسانی زندگیوں کے لئے مستقل خطرے کا باعث ہے،عدالت عالیہ نے زبیدہ یعقوب چوہدری کی رٹ منظور کرتے ہوئے قرار دیا کہ اگر درخواست گزاروں کی جگہ درکار ہے تو اس کو لینڈ ایکوزیشن ایکٹ1894کے تحت مارکیٹ ریٹ پر ایکوائر کیا جائے۔جب سے درخواست گزاروں کی اراضی پابندیوں کے تحت ہے تب سے ان کو کرایہ کی ادائیگی کا بھی کوئی حل نکالا جائے۔جسٹس عبادالرحمن لودھی نے اپنے فیصلے میں قرار دیاکہ دس اپریل1988 کا دن راولپنڈی اسلام آباد کے شہریوں کیلئے کسی قیامت صغریٰ سے کم نہیں تھا۔اس روز اسی طرح کے ایک اسلحہ ڈپو سے ہونے والی میزائلوں کی بارش سے ایک محتاط اندازے کے مطابق کم از کم چار ہزار افراد جاں بحق ہوئے تھے۔

اس سانحہ کی اول تو کوئی انکوائری نہیں کی گئی اور اگر کی بھی گئی ہے کہ تو آج تک منظر عام پر نہیں آئی ہے۔جس سے اس راز سے پردہ اٹھتا کہ سانحہ ہونے کی وجہ کیا تھی۔جو آج تک ایک معمہ ہے۔فیصلے میں کہا گیا ہے کہ بزرگ سیاستدان کلثوم سیف اللہ نے اس سانحے کے بعد لکھی جانے والی اپنی ایک کتاب میں انکشاف کیا تھا کہ اوجڑ ی کیمپ کا سانحہ اس وقت کے حکمران کی خصوصی ہدایت کا شاخسانہ تھا۔یہ سانحہ جس ڈپو میں ہوا۔وہاں سے افغان مجاہدین کوامریکہ اور اس کے تحادیوں کی طرف سے اسلحہ سپلائی ہوتا تھا۔اور سٹنگر میزائلوں سمیت دیگر شکایات کی تحقیقات کیلئے امریکی ٹیم وہاں پہنچنے والی تھی۔کہ اسی روز ڈپو میں تباہی مچ گئی۔جس کی آج تک تردید بھی نہیں کی گئی۔

عدالت عالیہ نے قرار دیا کہ ہماری قومی زندگی کے اس خوفناک باب کو سامنے رکھتے ہوئے یہ قرار دیا جاتا ہے کہ اسلحہ ڈپو انسانی آبادیوں سے باہر منتقل کئے جائیں۔کیونکہ اس امر سے انکار ممکن نہیں کہ کسی بھی حادثے یا کسی کے ناپاک غلط ارادوں کے باعث کسی بھی وقت کوئی سانحہ رونما ہوسکتا ہے۔ جسٹس عبادالرحمن لودھی نےقرار دیا ہے کہ 1903کا ڈیفنس آف ورکس کا قانون اس وقت کی غلام رعایا کیلئے تھا۔اب پاکستان کو آزاد ہوئے70برس ہوچکے ہیں۔اس کے شہریوں کے دستوری حقوق ہیں۔ اسلحہ ڈپو انسانی آبادیوں سے باہر ہونے چاہیں۔ راولپنڈ ی کا واقعہ اسی طرح پیش آیا تھا۔

عدالت عالیہ نے قراردیا کہ ڈیفنس آف ورکس 1903ایکٹ دور غلامی کا قانون ہے۔جس کے تحت پاکستان بھر میں دس شہروں ایبٹ آباد،پشاور،سرگودہا، ملتان، کراچی،لا ہو ر،گوجرا نوالہ، ساہیوال،جہلم اور کوئٹہ میں جائیدادوں پر ڈیفنس آف ورکس ایکٹ کا طلاق کیا گیا تھا۔یہ سلسلہ ادھر تک ہی نہیں رکا بعد میں دیگر شہروں میں بھی اسلحہ ڈپو بنائے گے۔ عدالت عالیہ نے قرار دیا کہ اس قانون کے باعث مالکان جائیداد مجبور ہیں کہ وہ اپنی جائیدادوں کو دور سے سے حسرت بھری نگاہوں کے ساتھ دیکھتے رہیں۔اور اس سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکیں۔حالانکہ آئین پاکستان ان کے حقوق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ان کی جائیدادوں کے تحفظ بھی ضمانت ہے۔

لاہورسے خبر نگار خصوصی کے مطابق لاہور ہائیکورٹ نے ڈپو سے ملحقہ خاتون کی2 کنال2مرلہ اراضی پر تعمیرات پر پابندی کا نوٹیفکیشن بھی کالعدم قرار دے دیا۔عدالت نے فیصلے میں قرار دیا کہ آج تک اوجڑی کیمپ سانحہ کے ذمہ داروں کا تعین نہیں ہو سکا،اوجڑی کیمپ بھی رہائشی علاقے بھی بنایا گیا تھا، خاتون سیاستدان کلثوم سیف اللہ نے اوجڑی کیمپ سانحہ کو حکومتی سازش لکھا تھا، مذموم عزائم والے عناصر دوبارہ اوجڑی کیمپ جیسی سازش کر سکتے ہیں، اوررہائشی علاقے میں ایمونیشن ڈپو دوبارہ انسانی جانیں لے سکتا ہے۔فیصلے میں لاہور ہائیکورٹ نے وزارت دفاع کوہدایت کی کہ ٹھوکرنیاز بیگ ایمونیشن ڈپوایک سال کے اندر کسی مناسب جگہ پر منتقل کرے ۔

فیصلے میں یہ بھی قرار دیا گیا کہ ڈپو کی کی عدم منتقلی کے متبادل درخواست گزار کی اراضی ایکوائر کی جائے اور اراضی ایکوائر کرنے پر مارکیٹ ویلیو کے مطابق معاوضہ ادا کیا جائے۔

تازہ ترین