• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہر لیگی جانتا ہےووٹ نوازشریف کے نام پرملتا ہے

Todays Print

اسلام آباد(طارق بٹ)پاکستان مسلم لیگ نواز میں سے ہی نوازشریف کیلئے تجویز کے طور پر ایسی آوازیں اٹھیں کہ وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف کو پارٹی صدارت کا منصب سونپ دیا جائے لیکن پارٹی میں موجود ہر لیگی رکن یہ بھی اچھی طرح جانتا ہے کہ اصل ووٹ صرف سابق وزیرا عظم کے نام پر ہی ملتا ہے اوران کے سوا پارٹی میں ایسا کوئی نہیں ہے۔موجودہ صورتحال میں یہ نااتفاقی کسی حد تک پریشانی کا باعث ہوسکتی ہے لیکن اس سے نوازشریف کوکوئی فرق نہیں پڑے گا کیونکہ وہ پارٹی میں غیر متنازعہ لیڈر ہیں،اس صورتحال میں ان کے سیاسی مخالفین اور ایسے عناصر کا حوصلہ بڑھے گا جو نوازشریف کو سیاسی میدان میں چت کرنا چاہتے ہیں،پارٹی میں کسی بھی مقام پر موجود ہر ایک یہ اچھی طرح جانتا ہے کہ نوازشریف کے پارٹی میں اہم پوزیشن پر نہ ہونے سے ان کا آئندہ الیکشن کا مستقبل نہیں ہوگا۔اس لیے کوئی نہیں چاہے گا کہ نوازشریف کی سیاسی سرگرمیاں ختم ہوجائیں۔

نا اتفاقی کی تمام آوازیں ان کے اگلے ہفتے وطن واپس آنے پر بیٹھ جائیں گی، ملک سے ان کی غیرموجودگی پر کچھ عناصر بننے والے خلا سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش میں ہیں۔ہر وہ شخص جو یہ سمجھتا ہے کہ سابق وزیر اعظم ملک سے باہر رہیں گے یا انہیں مقامی سیاست سے دور رکھنے کیلئے پا کستا ن سے باہر رکھنے کی کوشش میں ہے وہ کلی طور پر غلطی میں ہے کیونکہ ان کا ملک سے باہررہنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے ،یقینی طور پر ان کا مستقبل پاکستان میں ہے وہ جیل ہو یا پھر باہر لیکن برطانیہ میں نہیں ہے۔ان کی احتساب عدالت میں مسلسل پیشی سے ان کے سیاسی ماحول کو فائدہ ہی پہنچے گا نہ کہ اس سے انہیں کوئی نقصان ہوگا۔اس لیے وہ کوئی عدالتی کارروائی نہیں چھوڑیں گے۔

یہ واضح نہیں ہے کہ پارٹی سے چھوٹے بھائی کو قیادت سونپنے کا مطالبہ خودساختہ یا کچھ اور لیکن سیاسی معیار کو دیکھتے ہوئے وہ رضاکارانہ یا پھر اپنے ضمیر کی آواز کے مطابق وہ ایسی تجویز نہیں دے سکتے۔ایسے لوگ اداروں کی پالیسیوں ٹکرائو سے بھی اجتناب کرتے ہیں لیکن یہ بھول گئے کہ جو انہوں نے نہیں کیا وہ ان پر عائد کردیا گیا،یہ شہباز شریف کی طرف سے بھی کہا جاتا رہا اور ان کے بیٹے حمزہ نے بھی اپنی 2 ماہ کی خاموشی توڑنے کے بعد کہا تھا،اس کے پیچھے کسی بھی ادارے سے ٹکرائو کے بغیر مشکل وقت کاٹنا تھا،یہ بھی واضح کیا گیا کہ نوازشریف کا نکالا جانا بھی اسی کا تسلسل تھا۔

بین الصوبائی رابطے کے وزیر ریاض پیرزادہ بھی باغی ارکان میں سے تھے ،پہلے انہوں نے آئی بی کے مبینہ جعلی خط پر احتجاج کیا اور اس کے بعد انہو ں نے کہا کہ وزیراعظم اس کی تردید کردیں تووہ مطمئن ہوجائیں گے،وزیرا عظم شاہد خاقان عباسی نے اسمبلی فلور پر ایسا ہی کیا اور اس کے بعد پیرزادہ نے اعلان کیا کہ وہ مطمئن ہوگئے ہیں۔تاہم 4 روز بعد جب انہوں نے شہباز شریف کا نام پارٹی سربراہ کے عہدے کیلئے پیش کیا تو انہوں نے دوبارہ آئی بی کے خط سے متعلق اپنی بات کو دہرایا،اس بار ان کاکہناتھا کہ وہ (ن) لیگ کے پارٹی ٹکٹ اور نوازشریف کی حمایت کے بغیر الیکشن نہیں لڑیں گے۔

وہ نااہل نوازشریف کو صدر بنانے کے پارٹی فیصلے کے بھی ناقد تھے،لیکن انہوں نے ہونے والے الیکشن کے دوران کوئی بات نہیں کی،اسی طرح الیکشن ایکٹ کے دوران بھی ایسی کوئی آواز بلند نہیں ہوئی تھی۔چند ماہ قبل پرزادہ نے پاکستان اسپورٹس بورڈ کے ڈائریکٹر جنرل سے متعلق ایک فیصلہ رد ہونے پر احتجاجا مستعفی ہونے کا بھی فیصلہ کیا تھا، اس دوران انہوں نے الزام عائد کیا تھا کہ وزیر اعظم کے قریبی معاون انہیں ان کے منصب میں کام کرنے سے روک رہے ہیں،لیکن اس کے بعد انہوں نے نواز شریف سے ملاقات کے بعد اپنا فیصلہ تبدیل کرلیا تھا۔پیر زادہ کی جانب سے اپنے خیالات کا اظہار ایسے وقت میں کیا گیا کہ جب 3 درجن کے قریب موجودہ اور سابقہ ارکان اسمبلی کا لاہور میں اجلاس ہوا اور پھر سے وہی بات کی گئی ۔یہ اجلاس پنجاب کے وزیر راجہ اشفاق سرور کی زیر صدارت ہوا تھا۔

جیسے ہی نوازشریف وطن واپس آئیں گے، وہ ایسے عناصر اور نااتفاقی کی فضا کو بھانپ لیں گے ،ان کے سامنے کوئی بھی ان کیخلاف اپنی آواز نہیں اُٹھاسکے گا اور ہر ایک جانتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) میں وہ ہی اصل فیصلہ کرنے والے ہیں۔

تازہ ترین