• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تیس سال اقتدار میں رہنے والوں کو اب کرپشن کیوں نظر آئی،چیئرمین نیب

Todays Print

اسلام آباد (اعظم خان)قومی احتساب بیورو کے چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے وزیراعلی پنجاب شہباز شریف کے اس بیان پر سخت برہمی کا اظہار کیا ہے جس میں انہو ں نے نیب کو انتہائی بدعنوانی ادارہ قرار دیا تھا۔ چیئرمین نیب نے اس نمائندے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ وہ لوگ جو 30 سال سے اقتدار میں ہیں اب نیب پر بدعنوان ادارہ ہونے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔‘‘ انہوں نے یقین دلاتے ہوئے کہا کہ ’’میں یقین دلاتا ہوں کہ سب سے پہلے گھر صاف کرنے سے آغاز کروں گا اور پھر دوسروں کے پیچھے جاؤں گا۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’میں نے چند روز قبل ہی چیئر مین کے طور پر چارج لیا ہے اور اب مجھے بتایا جا رہا ہے کہ نیب ایک کرپٹ ادارہ ہے۔ اس کا کیا مطلب ہے۔‘‘

جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے کہا کہ وہ تمام ریفرنسز کی نگرانی کریں گے اور میرٹ کو یقینی بنائیں گے۔’’نیب پر کسی جانب سے کوئی دباؤ نہیں ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ آئین کی دفعہ 189 کے تحت سپریم کورٹ کی ہدایات پر عمل کرنا تمام اداروں کے لئے لازمی ہے۔ میں کہا کہ میں کسی کو نہیں چھوڑوں گا۔ اگر بدعنوانی ہوئی ہے تو نیب کسی خوف اور حمایت کے بغیر قدم اٹھائے گا۔ انہوں نے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’’احتساب بلاتفریق ہوگا۔‘‘

جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال اعلی عدالت کے ان ججوں میں سے ایک تھے جنہوں نے 1999میں جنر ل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے متنازع عبوری آئینی حکم نامے کے تحت حلف لیا تھا، جس سے عملی طور پر ملکی آئین ختم ہوگیا تھا۔ 1936 میں پیدا ہونے والے جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال دو اہم کمیشنوں کی سربراہی کر چکے ہیں۔ ایک ایبٹ آباد میں 2011 میں امریکی حملے کی وجوہات جاننے کےلئے ایبٹ آباد کمیشن اور دوسرا سپریم کورت کے احکامات پر وزارت داخلہ کی جانب سے تشکیل دیا جانے والا جبری طور پر لاپتہ کرنے کی تحقیقات کے لئے کمیشن شامل تھا۔

جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال نے کہا کہ وہ لاپتہ افراد کے کمیشن کے سربراہ رہیں گے اور اس کی جامع رپورٹ پیش کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ اس پر کام کرنے میں تین گھنٹے لگے تھے اور اب مجھے لاپتہ افراد کے مسئلے پر رپورٹ مرتب کرنے کے لئے تین ماہ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’میں نے اثرورسوخ استعمال کر کے لاہور کی صحافی زینت بی بی کو بازیاب کرایا تھا، جو دو برس قبل لاپتہ ہوگئی تھیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’انٹیلی جنس ایجنسیو ں نے زینت کو سرحد پار سے لانے میں واقعی قابل ذکر مدد کی تھی۔‘‘انہوں نے کہا کہ ’’یہ میرا یقین تھا اور ہے کہ ہماری ایجنسیاں کسی خاتون کو اغوا نہیں کر سکتیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ زینت کے اغوا میں دشمن انٹیلی جنس ایجنسیاں ملوث تھیں۔  

تازہ ترین