• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاہور ہائی کورٹ نے ٹھوکر نیاز بیگ لاہور سے اسلحہ ڈپو ایک سال کے اندر کسی دوسری جگہ منتقل کرنے کا حکم دیتے ہوئے قرار دیا ہے کہ انسانی آبادی کے اندر ایسے ڈپوئوں کی موجودگی انسانی زندگیوں کے لیے مستقل خطرہ ہیں۔ مسٹر جسٹس عبادالرحمن لودھی نے ایک خاتون زبیدہ یعقوب کی درخواست پر اس کی ملحقہ اراضی پر تعمیرات پر پابندی کا نوٹی فیکیشن کالعدم قرار دے دیا اور وزارت دفاع کو ہدایت کی کہ درخواست گزار کی اراضی ایکوائر کرنا مقصود ہو تو مارکیٹ ویلیو پر اس کا معاوضہ ادا کیا جائے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں لکھا ہے کہ اوجڑی کیمپ اسلحہ ڈپو بھی رہائشی علاقے میں تھا۔10اپریل 1988 کو یہاں دھماکے ہوئے اور میزائلوں کی بارش سے اسلام آباد و راولپنڈی کے کم از کم چار ہزار افراد جاں بحق ہوگئے۔ آج تک اس واقعے کے ذمہ داروں کا تعین نہیں ہو سکا۔ یہ بات قابل ذکر ہے اور عدالت نے بھی اس کی نشاندہی کی ہے کہ انگریزوں نے اپنے دور میں ڈیفنس آف ورکس ایکٹ کے تحت دس شہروں ایبٹ آباد، پشاور، سرگودھا، ملتان، کراچی، لاہور، گوجرانوالہ، ساہیوال، جہلم اور کوئٹہ میں اسلحہ ڈپو قائم کئے تھے۔ بعد میں بعض دوسرے شہروں پر بھی اس قانون کا اطلاق کر دیا گیا اور لوگوں کو ان کی جائیدادوں سے محروم کر کے اسلحہ ڈپو بنا دیئے گئے۔ یہ غلامی کا دور تھا اب شہریوں کو دستوری حقوق حاصل ہیں۔ ان کی زندگیاں خطرے میں نہیں ڈالی جا سکتیں، عدالت نے بجا طور پر نشاندہی کی ہے کہ مذموم عزائم رکھنے والے عناصر اب بھی اوجڑی کیمپ جیسی سازش کر سکتے ہیں اس لیے اسلحہ ڈپو شہری آبادی سے باہر منتقل کئے جائیں۔ اگرچہ اس کام کے لیے وقت بھی کافی درکار ہو گا اور فنڈز بھی چاہئیں لیکن انسانی زندگی سے زیادہ کوئی چیز قیمتی نہیں ہو سکتی۔ اس لیے حکومت کو باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت اسلحہ ڈپو نئی جگہوں پر منتقل کرنے چاہئیں تاکہ اوجڑی کیمپ جیسا کوئی اور سانحہ پیش نہ آسکے۔

تازہ ترین