• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب اس کی آنکھ کھلی تو اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ وہ کتنی صدیاں، کتنے برس سوتا رہاہے۔ جو منظر، شہر اور لوگ اس کے گرد گھوم رہے تھے اسے ان کی زبان بھی نہیں آتی تھی۔ صرف اس کے پاس PK کی طرح یہ فن تھا کہ وہ ان میںسے کسی کا ہاتھ پکڑ کر اس جہان میں، اس زمان میں ہونے والے واقعات انہی لوگوں کی زبان میں سمجھ سکے۔ اب آپ پوچھیں گےکہ میں کس کی کہانی بیان کر رہا ہوں تو صاحبو! یہ اصحاب کہف میں سے تو نہیں تھالیکن شاید بادشاہ مچکند تھا، شمس الرحمٰن فاروقی اس طویل قصے کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ایک بار جب آسروں نے دیوتائوں پر چڑھائی کردی اور دیوتا ان سے تنگ آگئے تو انہوں نے بادشاہ مچکند کو طلب کیا جوشری رام چندر جی کے اسلاف میں سے ہے۔ مچکند نے گھمسان کی جنگ کی اور آسروں کو پسپا کردیا چونکہ وہ جنگ میں بہت تھک گیا تھا اس لئے راجہ اِندر نے اسے سلا دیااوریہ نیند اتنی لمبی ہوگئی کہ جب وہ جاگا تو دنیا ہی بدل چکی تھی۔ زمانہ اس قدر آگے نکل گیاتھاکہ انسان اور جانور جو اس کے زمانے میں عظیم الجثہ ہوتے تھے وہ ہمارے زمانے کےچھوٹے قد کے ہوگئے تھے گویا مچکند کی نیند کوکئی یُگ بیت گئے۔
سو ہمارے مچکند کی جب آنکھ کھلی تو اس نے اپنے آپ کوکہیں ویرانے میں پایا۔ اپنی نیند سے پہلے کے دور کو یادکرتے ہوئے وہ پریشان تھا جب آس پاس کے راجے مہاراجے اور پرجا سب اسی کے گُن گاتے تھے مگر اس وقت تو وہ کپڑوں سے عاری تھا۔ کپڑے تو خیر اس نے PK کی طرح حاصل کرلئے مگر بولی جاننے کے لئے بہت محنت کرنا پڑی۔
کہیں دور سے بہت شور آ رہا تھا۔ وہ اس طرف کو چل پڑا۔ اسے سمجھ میں نہیںآ رہا کہ یہ کون ہے جو بیک وقت ایک ہی سانس میں مردانہ اور زنانہ انداز میں تقریر کر رہا ہے۔ تقریر تو خیر اس کی سمجھ میں نہیں آئی لیکن اتنا ضرور پتا چلا کہ کوئی ہے جو سب پہ بھاری ہے۔ وہ اس پر غور کر ہی رہا تھا کہ مجمع نے کسی سمت بھاگنا شروع کردیا۔ عجیب بھگدڑ کا عالم تھا۔ کچھ کھانے کے بڑے بڑے برتن تھے جن سے جس کے ہاتھ جو لگا وہ اٹھا کر بھاگ رہا تھا۔ منٹوں میں لوگ سب چٹ کر گئے اور میدان صاف ہوگیا۔
اس نے ایک سمت پکڑی اور چلنا شروع کردیا۔ چلتے چلتے اس کو رات ہو گئی۔ ویرانے میں کہیں دور سے روشنیوں کے پیچھے ایک اور جلسہ تھا اور اسٹیج پر سے کوئی صاحب زور زور سے چیخ رہے تھے ’’زرداری نری بیماری‘‘اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ یہ کون صاحب ہیں جو سب پہ بھاری بھی ہیں اور نری بیماری بھی ؟
یہ جاننے کے لئے کہ اس کی حقیقت کیا ہے اس نے کراچی کے لئے ٹرین پکڑی۔ ٹرین پر بیٹھتے ہی کافی باتیں اس کی سمجھ میں آگئیں۔ رہی سہی کسر کراچی نے پوری کردی۔ اس کوزیادہ تردد نہیں کرناپڑا۔ ہر طرف قبضہ مافیا ہی قبضہ مافیا تھا۔ شہر لسانی بنیاد، مذہبی بنیاد، گروہی بنیاد اورسیاسی بنیاد پر بٹا ہواتھا۔ اس نے لوگوںکو سمجھانا چاہا کہ جن لیڈروں کو تم اپنے محسن سمجھ کر اس گمراہی میں مبتلا ہو وہ سب غلط ہیں۔ تمہارا فون غلط نمبر پر لگ گیا ہے مگر اسے کبھی پی پی پی، کبھی اےاین پی اور کبھی مہاجر سمجھ کر خوب اس کی درگت بنائی گئی۔ اس کو یہی سمجھ میں آیاکہ یہ بستی جھوٹ کی بستی ہے۔ یہاں سب کاروبار ہے۔ زبان، مذہب، سیاست اخلاقیات حتیٰ کہ صحافت بھی سب کاروبار ہے مگر کمال یہ تھاکہ اتنی گمراہی میں گھرے لوگ اس کا احساس نہیں کر پا رہے تھے۔ سڑک پر اگروہ کھڑا ہوتاتو کاروں کی لمبی قطاروں کو دیکھ کر اسے یہ شائبہ ہوتا کہ شاید وہ کسی امیر و کبیرملک میں آگیاہے مگر فٹ پاتھوں پر کیڑوں کی طرح رینگتے بیروزگار، فقیر حال لوگوں کو دیکھ کراس کی آنکھوں سے آنسورواں ہوجاتے۔ بلند و بالا عمارتیں اسے آسیب زدہ لگتیں اورگلی محلوں میں گٹروں سے ابلتے کیڑوں کی طرح ٹڈی دَل بچے آسیب لگتے۔ یہ سب کیا ہے؟ ایسا کیوں ہے؟ ایسا کبھی مچکند جب بادشاہ تھا اس کے دور میں توسوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔
اسے اس دور کے سربراہوں کے خطابات سن کر بھی رونا آتا کہ جو کبھی مارگلہ پہاڑیوں کے نیچے سے سرنگیں نکال کر طویل سڑکوں کے جال بچھانے کی باتیں کرتے اور کبھی میٹرو اور جنگلا بسوں کی۔ مگر ضرب ِ عضب کے لئے بنائی گئی کمیٹیوں درکمیٹیوں میںسوائے بحث کے کچھ نہ کرپاتے۔ وہ مسجدوں، سکولوں، امام بارگاہوں میں ایک قوم ایک مذہب کے لوگوں کے ہاتھوں اپنے ہی بھائیوں کے قتل کےبارے میں سوچ کر بھی لرز اٹھا۔
اسی خواب میں تھا کہ مچکند کی آنکھ کھل گئی۔ اس نے ارگرد دیکھا۔ ہر طرف سرسبز باغوں، پھولوں کی وادیاں تھیں۔ لوگ خوشحال تھے، خوش تھے،امن و سکون تھا، اس نے اپنے اس خواب کے بارے میں سوچا کہ جو دیکھتے ہوئے وہ بیدارہوا تھا اور شکر ادا کیاکہ وہ اس ملک میں پیدانہیں ہوا۔ اس دور میں زندہ نہیں ہے کہ جس کا بھیانک خواب دیکھ کر وہ بیدارہوا تھا۔

تازہ ترین