• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یورآنریہ کیا ہورہاہے! گل وخار…سیمسن جاوید

پاکستان میں سیاسی پارٹیوں کی اہم لیڈر شپ میں ایسے شوہروں کی کمی نہیں جو اپنی بیگمات کی سوچ اور کردار کے بالکل برعکس ہیں۔بیویاں اگر انسانی حقوق اور ملک کے عام آدمی کی ترقی اور ملک کی خوشحالی کی خواہاں ہیں تو شوہر کرپشن اور انتہا پسندوں کے ہمدرد ہیں۔ یعنی بیوی کی کارکردگی پر پانی پھیرنے میں ذرا بھربھی دیر نہیں کرتے۔بیویاں پھر بھی ایسے شوہروں کو برداشت کرتی ہیںاور بعض توطلاق یافتہ ہونے کے باوجود بھی اپنے شوہر کو صادق و امین ثابت کرنے کے لئے تما م ثبوت فراہم کرتی ہیں۔اور اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت بھی اپنے سابق شوہر کی منشا کے مطابق کرتی ہیں شائد یہ ان کا بڑا پن ہے یاسیاسی مجبوریاںیا مصلحتیں ہیںمگر شوہر پھر بھی اپنی ڈگر پر چلنا اپنا شیوا سمجھتے ہیں۔المیہ یہ کہ پارٹی کارکن یا ایسے لوگ جو پارٹی کے لئے سیاہ دھبہ ہیں اوربالکل احتجاج یا محاسبہ نہیں کرتے۔کب تک بیگمات اپنے شوہروں کی بھینٹ چڑھتی رہیں گیں۔ خیر گزرے چند ہفتے جہاں عدلیہ ،فوج اور حکومت کے درمیان اختلافات کھل کر سامنے آگئے۔ حالانکہ ملک کے ان ذمہ دار اور اہم اداروں کا اپنے اپنے دائروں میں رہتے ہوئے کام کرنا ہی ملک کے وسیع تر مفاد میں ہے۔دوسری دنیا میں تو لوگ اپنے چیف آف آرمی سٹاف یا فوجی ترجمان کا نام تک نہیں جانتے ۔یہ ہماراہی ملک ہے جو ہر وقت تھرڈ ایمپائر کی انگلی اٹھانے کے انتظار میں رہتاہے اور پولیس کا کام بھی فوج کو ہی کرنا پڑتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ حسب معمول جب انسانی حقوق کی پامالی کی مثالیں سامنے آئیں تو بہت ساری اچھی مثالیں بھی منظرِعام پر آئیں ۔مثلاً مریم نواز کے شوہر نامدار کیپٹن صفدرنے ،جن پر پہلے ہی بنیاد پرست اور انتہا پسند وں کی حمایت کرنے کا الزام ہے، اسمبلی کے فلو رپر احمدی اقلیتوں کے خلاف بیان دیا تو انہی کے سسر اور صدر مسلم لیگ (ن) میاں محمد نواز شریف نے فوراً اپنی اور اپنی سیاسی جماعت کی انسان دوست پالیسی پر پریس ریلیز جاری کردیاکہ مسلم لیگ ن اقلیتوں میں کوئی امتیازنہیں رکھتی بلکہ پاکستان میں رہنے والے تمام شہریوں کو برابر کا شہری تسلیم کرتی ہے۔اسی طرح تقریباً تمام ہی سیاسی لیڈروں نے کیپٹن صفدر کے خیالات کی شدید مذمت کی۔گویا یہ ایشو بھی آخر کار ٹھنڈا پڑ گیا۔خوش آئند بات یہ بھی ہے کہ انتہا پسندی کی وجوہات، اقلیتوں کی پاکستان کی تعمیر و ترقی و دفاع کے حوالے سے کردار کو الیکٹرانک میڈیا نے بڑے مثبت انداز سے بیان کیا۔ اسی طرح اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شوکت عزیر صدیقی کی جانب سے دیئے گئے تفصیلی فیصلے میں یہ کہنا کہ توہین رسالت کا الزام لگانے والے کو بھی توہین رسالت پر مقررہ سزا دی جائے جس کیلئے قانو ن سازی ضروری ہے اور یہ بھی کہ کسی فریق کے ذاتی جھگڑے کا فیصلہ کرنا نہیں بلکہ پاکستان کی بقاو سلامتی کیلئے اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریاں پوری کرنا ہے۔ توہین رسالت کا جھوٹا الزام کسی جرم کی غلط اطلاع دینا 182تعزیرات پاکستان کے تحت از خود سنگین جرم ہے۔آزادی رائے کے نام پر گستاخیوں کو جائز قرار دینے والوں کے لئے پوپ فرانسس کے الفاظ کافی ہیں کہ ’’ تم کسی کی ماں کو گالی دو تو پھرجواب میں تھپڑ کھانے کیلئے تیار ہو جاؤ‘‘ دستورِ پاکستان کی رو سے اسلامی تعلیمات کے خلاف قانون سازی نہیں ہو سکتی۔ جبکہ کسی شخص پر ایسا جبر نہیں کیا جا سکے گا جس کے تحت اس کی مرضی کے مذہب و عقیدے کو رکھنے یا اختیارکرنے کی آزادی کو مجروح نہیں کیا جاسکے گا ۔جہاں توہین رسالت کے مرتکب کے خلاف سخت ترین سزائیں تجویز کی گئی ہیں،وہیں قانون ِتوہین رسالت کے بارے میں نازیبا گفتگو بھی قانونی طور پر ممنوع ہے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس شوکت عزیر صدیقی کی جانب سے دیا گیا تفصیلی فیصلہ بیشک خوش آئند ہےجس پر عملدرآمد کرکے توہین رسالت کے غلط استعمال کو روکا جا سکتا ہےاور مزید بیگناہ مظلوموں کی بھی جان بچا ئی جا سکتی ہے جن پر دشمنی یا ان کی جائیدادیں ہتھیانے کیلئے ان پرتوہین رسالت کا غلط الزام لگا دیا جاتا ہے۔کیا ہی اچھا ہوکہ اسلام آباد ہائی کورٹ قانون رسالت کا غلط استعمال کرنے والوں کیخلاف ایکشن لے اسی طرح توہین رسالت کے قانون کو غلط استعمال میں لانے والوں کو بھی قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ ان کیلئے عبرت بنے۔ تشویش کا باعث یہ ہے کہ پاکستان میں لوگ بغیر ثبوتوں کے سنی سنائی باتوں پر سوچے سمجھے بغیر، توہین رسالت کا الزام لگنے والے کی سزا خود ہی تجویز کردیتے ہیں۔

تازہ ترین