• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وادی کشمیر میں ماحول کی کثافت تحریر:ڈاکٹر غلام نبی فلاحی…لندن

(پہلی قسط)
جب کوئی کشمیری بھارت کی دیگرریاستوں سے چنددن بعد اپنے گھرلوٹتاہے توسری نگر ائرپورٹ پر یا بانہال ٹنل عبور کرتے ہی وادی کشمیر کی فطری اور مسحور کن ہوائیں اسے اپنی بانہوں میں لیکر اسکے استقبال کے لیے تیار ہوتی ہیں۔ دوسری جانب وہ بھارت کی مختلف ریاستوں میں جھلسا دینے والی اس گرمی اور بادسموم سے بھی راحت محسوس کرنے لگتاہے، جن کو سلسلہ کوہ ہمالیہ کے فلک بوس پہاڑوں نے وادی کے اس پار روکے رکھا ہے۔ غالباً ہندوستان کے سترہویں صدی کے مغل بادشاہ جہانگیر نے شاید کشمیری کی انہی ہوائوں اور یہاں کی مسحور کن فضاء کو دیکھ کر یہ کہا تھا کہ زمین پر اگر کوئی جنت ہے تو یہی کشمیر ہے۔ مگریہی جنت کشمیر آج ماحول کی کثافت اور زہریلی آلودگیوں کی وجہ سے سردجہنم کا نظارہ پیش کررہی ہے جس سے ہر شخص پریشان ہے۔لوگ ذہنی طور مریض ہوتے جارہے ہیں۔ ڈپریشن، بلڈپریشر کے ساتھ ساتھ سکون و اطمنان غارت ہوچکا ہے، اس میں اگر کوئی کمی رہ گئی تھی تو سڑک کے دونوں جانب گندگی اور کوڑا کرکٹ کے بڑے بڑے ڈھیروں نے وہ پوری کردی ہے جسے گزشتہ تیس سالوں کے دوراں نظراندازکیا گیا ۔ ائرپورٹ سے قدم باہر رکھتے ہی گاڑیوں، کاروں، ٹرکوں اورٹیمپوں کا شوروغوغا اور ہارن پر ہارن بہرہ کردینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ دھول، دھواں ،گندگی اور پولیتھن بیگوں سے اٹی نالیوں پر جب نظر پڑتی ہے تو بدن میں انقباض سا پیدا ہونے لگتاہے۔ ان گندی نالیوں کی بدبو صحت پر بڑی حدتک اثرانداز ہوتی ہے ۔ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ہم کشمیری اب اس کے عادی ہوگئے ہیں اس لیے زیادہ محسوس نہیں ہوتا، مگر جو لوگ کچھ عرصہ باہر گزار کر وادی کشمیر وارد ہوتے ہیں انہیں یہاں کا یہ ماحول فوراً اپنی گرفت میں لیتا ہے۔ ہمیں اس حقیقت کو اپنے سامنے رکھنا چاہیے کہ جس ماحول میں ہم رہتے ہیں اس سے ہم اپنے آپ کوجدا نہیں رکھ سکتے ہیں۔ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ہم کشمیریوں نے شاید یہ سبق ابھی نہیں پڑھا ہے کہ گھر کا صحن، دریا ، نہریں، کھیت کھلیان، درخت، پودے، جنگلات اورماحول کو محفوظ رکھنے کی ذمہ داری ہم پر بھی عائد ہوتی ہے۔ یہ حقیقت اپنی جگہ کہ جس رفتار سے سائنس نے ترقی کی اتنی ہی تیزی کے ساتھ نئے نئے مسائل نے جنم لیا، جس نے انسان کی تہذیبی، سماجی، اخلاقی، عملی، فکری اور تخلیقی زندگی کو زہریلا کردیا۔ ’’ لوگوں نے اپنی ہاتھ کی کمائی سے خشکی اور تری میں فساد برپا کردیا،، (قرآن) ریاست جموں و کشمیر میںقدرتی وسائل کو اپنے حرص و ہوس کے خاطر بے دریغ استعمال نے یہاں کے رہنے والے انسانوں کو چہار طرفہ فساد میں مبتلا کردیا ہے، ہر طرف غلاظت اور گندگی کی وجہ سے انسانی زندگی سخت اذیت میں ہے۔ ماحول کا تحفظ نہ صرف انسانوں کی زندگی کے لیے ضروری ہے بلکہ کھانے پینے کی اجناس اور چرند و پرند اور نباتات کے لیے بھی اہم ہے۔ جس طرح سے آب و ہوا کی کثافت اور ماحول کی آلودگی انتہائی مضر ہے اسی طرح سے شورغوغا بھی نہایت ہی نقصان دہ ہے۔ کشمیر ائر پورٹ سے باہر آتے ہی جس چیز کا سب سے پہلے مشاہدہ ہوتاہے وہ گاڑیوں کی عجیب و غریب آوازیں اور ان کا نہ ختم ہونے والا ہارن ہے جس سے کان سن ہوجاتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ ہر کوئی نفسانفسی کے عالم میں گرفتار ہے زندگی کی بھاگ دوڑ میں ایسا کھویا ہوا ہے کہ دوسرے کی اس کو کوئی خبر نہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دنیا میںجہاں ماحولیاتی کثافت صحت و زندگی کے ضمن میں بڑے بڑے مسائل پیدا کئے ہیں وہی شور شرابہ انسانی صحت کو بھی بری طرح سے متاثر کررہاہے۔ اس میں بے ہنگم ٹریفک، موٹر کاریں، پرانی زنگ آلود بسیں، ٹرک اور ٹریکٹرر کے علاوہ فوجی کانوائے سے پیدا ہونے والا شوروغوغا ،دھواں اور اژدھام بھی ایک خاص رفتار کے ساتھ نہ صرف یہاں کی ماحولیاتی آلودگی میں ایک بہت بڑا فیکٹر ثابت ہورہا بلکہ یہ غیر شعوری طور سے چرند و پرند اور نباتات کے علاوہ انسانی صحت کو بھی متاثر کررہاہے۔ ترقی کے نام پرہرے بھرے جنگلات اور پیڑوں کی غیر متناسب کٹائی اور استحصال، فریج، ریفریجیٹر اور ائرکنڈیشن یا کاروں میں استعمال ہونے والے کیمیائی مادے کے اخراج سے پوری فضا میں تعفن پیدا ہورہا ہے۔اتنا ہی نہیں بلکہ گزشتہ تیس سالوں میںبندوقوں، گرنیڈوں اور آتشیں اسلحہ نے بھی یہاں کے عام لوگوں کو بھی نڈھال کررکھاہے۔ اب پیلٹ گنوں سے خارج ہونے والا آتشین مادہ بھی جلتی پر تیل کا کام کرجاتاہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ یہاں ایسی بیماریوں نے جنم لیا ہے جنکا علاج بھی یہاں میسر نہیں۔ ذیابیطس کی بیماری، ہائی بلڈ پریشر، تھائی رائیڈ، ذہنی ڈپریشن، جلد کی بیماریاں اور چہرے پر نمایاں دھبوں کے علاوہ کینسر عام ہورہا ہے، یہاں تک کہ دس میں سات آدمی اسکی شکایت کرتے ہیں۔ یہ چیزیں کشمیرتک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ ماحول کی کثافت نے پوری دنیا کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے۔ مثلاً خلا میں بھیجے جانے والے بیکار شٹیل کو گردش کے دوراں ہی فضاء میں تحلیل کرکے تباہ کرنے کی وجہ سے خلائی خطے بھی زہریلی ریڈیائی لہروں ، کیمیاوی فضلات سے بھرتے جارہے ہیں رفتہ رفتہ ایسی فضا اور ایسی ہوا میں سانس لینا بھی مشکل ہورہا ہے۔ پانی جس پر انسانی وجود کے بقاء کا دارو مدار ہے وہ اس قدر زہریلا ہوگیا ہے کہ انسان نہ خود اسے استعمال کرسکتا ہے اور نہ اپنے جانوروں کو ہی پلا سکتا ہے۔ کشمیر میں قیام کے دوران، بہت سے دوست واحباب سے ملاقات کا موقع ملا، سبھی یہی رونا رورہے تھے کہ ذہنی تنائو نے مار ڈالاہے۔ یہاں کی زندگی اب اجیرن بن چکی ہے نہ کوئی ذہنی سکون ہے نہ دل ہی مطمئن ہے، جائیں تو جائیں کہاں، سکون قلب و جگر چھن گیا ہے ۔ کیونکہ ہوس کے پجاری اور موت کے سوداگروں کے ذریعہ لڑی جانی والی چھوٹی اور بڑی جنگوں میں بڑی اور چھوٹی تباہی والے ہتھیاروں، گولہ بارود، حیاتیاتی ہتھیار، ہائیڈروجن بم یا کلسٹر بموں کے لاکھ ٹن مادے فضا کی ألودگی بڑھاکر ماحیولیاتی توازن میں خلل، انتشار اور فساد پیدا کرتے ہیں۔ اب یہ زمین نہ جانے کتنی انجانی بیماریوں کی آماجگاہ بن گئی ہے۔ ان بیماریوں سے نہ غریب بچا ہے نہ امیر۔ انسان تنفس، جگر پھیپھڑے، ناک آنکھ ، کان آنت اور ہڈیوں کے بے شمار بیماریوں میں مبتلا ہورہا ہے۔ آج کا ترقی یافتہ انسان قدرت کے بیش بہا قیمتی مگرسستے اور ہر طرف دستیاب تحفے صاف ہوا اور پانی سے محروم ہورہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سائنسی ایجادات جو انسانوں کے لیے ایک رحمت بن کر آئے اور اب ایک ناگزیر ضرورت بن گئے ہیں انکی مضرت رسانی کو بہت سے طریقوں سے ختم کیا جاسکتاہے۔ مگر اس کے لیے حکومتی سطح پر کوئی میکنزم موجود ہی نہیں ہے اور اگر کہیں ہے تو وہ بیکار ہے۔ آج کل کشمیر میں گاڑیوں کی بھر مارہے۔ گاڑیاں انسانوں سے زیادہ ہے ،ایک متوسط گھر میں بھی دو یا تین گاڑیاں پائی جاتی ہے۔ مگر گاڑی چلانے والے فن کارڈرائیور کہیں نظر نہیں آتے جن کے اندر یہ شعور ہو کہ گاڑی کیسے چلائی جاتی ہے ۔ ڈرائیور لوگوں کو بس یہ جنون سوار ہوتا ہے کہ وہ آگے کیسے نکلیں اسے اسکی قطعاً کوئی پروا نہیں کہ آگے انسان ہے یا کوئی جانور مگر وہ اپنی ڈرائیوری کے کرتب دکھا کر بے شمار انسانوں کی جان لینے کا باعث بنتا ہے۔ جس کے نتیجہ میں آئے روز بیشمار ہلاکتیں بھی ہوتی ہیں۔ سرکاری سطح پر کشمیر میں جس رفتار سے گاڑیاں خریدی جارہی ہیں اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ دو ہزار نو میں 24608 گاڑیاں خریدی گئی تھیں، مگر 2014ء میں یہ تعداد 45385 تک پہنچ گئی۔ گویا دگنی سے بھی زیادہ۔ دوہزار سترہ میں ان کی تعداد میں 60 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر ایسی گاڑیاں جو بہت ہی پرانی ہیں جو زنگ آلود ہیں جو نہ صرف بڑی بڑی آوازیں نکالتی ہیں بلکہ فضاء کو آلودہ کرنے میں انکا بہت بڑا حصہ بھی ہے۔ گاڑی ایک رحمت بھی ہے اور انسانی راحت کے لیے اللہ تعالی طرف سے ایک تحفہ ہے مگر ہم جس بے ہنگم طریقے سے اس پر سوار ہوکر دوسروں کی جانوں سے کھیلتے ہیں وہ ایک زحمت سے کم نہیں۔ ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ کشمیر کے متنازع ہونے کے باعث گزشتہ تیس سالوں سے روزانہ یہاں بندوقوں اور گرنیڈوں کی گھن گرج اور مارٹر شلنگ نے بھی یہاں کی فضاء کو بہت حدتک مکدر کررکھا ہے ۔لوگ اس گھن گرج سے اتنے مانوس ہوچکے ہیں اب ان آوازوں کو سنے بغیر نیند آنا بھی محال ہے کیونکہ اب کان اس کے عادی ہوگئے ہیں۔ اس سے جو زہریلے مواد اور بارود خارج ہوتاہے یہ بھی بڑی حدتک فضاء کی کثافت کا باعث ہے۔ شور و غوغا یاصوتی آلودگی کی کربناک و زہرناکی کا ضرر بھی یہاں کی فضاء کو مسموم بنانے اور عوام کی قوت سماعت کو شدید نقصان پہنچانے کا باعث بن رہا ہے۔ جدید تحقیق سے یہ ثابت ہورہاہے کہ ہائپرٹینشن ، ذہنی تنائو، بے چینی ، بے خوابی ، قلبی و اعصابی امراض شوگر انہیں چیزوں کی دین ہیں۔ یہ شورغوغا صرف گاڑیوں تک ہی محدود نہیں بلکہ شادی بیاہ کے مواقع پر جہاں ایک جانب چراغاں کے لیے بے تحاشہ پیسہ خرچ کیا جاتا جس سے غیر شعوری طورپر بینائی متاثر ہوتی ہے وہی یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ یہ محفلیں بھی شوو غوغا سے خالی نہیں ہوتی ہیں۔ خوشی کا اظہار اپنی جگہ اور ایسے مواقع پر ہر حال میں خوشی کا اظہار کرنا چاہیے مگر حدود اور آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے نہ کہ حدود کو پار کر کے۔ رات کے وقت شادی والے بہت سے قوالوں، گویوں کو کرایہ پر لاکر پوری بستی میں شوربرپا کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں نہ ہمسائے سوپاتے ہیں، نہ بچوں کو نیندکا موقع دیا جاتاہے۔ میوزک اور بینڈ کو اتنے زور سے بچایا جاتاہے کہ گھرکے ماحول کے ساتھ باہر کے ماحول کو بھی خراب کردیا جاتاہے اس کے ساتھ ساتھ آتش بازی کا دھواں بھی سیدھے حلق میں اتر کر جلتی پر تیل کا کام کرتا ہے۔(جاری ہے)

تازہ ترین