• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تھرپارکر میں غذائی قلت اور صحت و صفائی کے ناقص انتظامات کےباعث آئے دن ہونے والی ہلاکتوں میں گزشتہ رو ز مزید 9،رواں ماہ میں 30 اور موجودہ سال کے دوران 150 اموات کا تشویشناک اضافہ حکومتی اور مخیر اداروں کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے۔ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور پسماندہ ترین ضلع تھرپارکر کے یہ لوگ بے بسی کی تصویر بنے ہوئے ہیں۔ یہ ایک مستقل مسئلہ ہے جو برسوں سے حل کا منتظر ہے۔ پاکستان کے 156 اضلاع میں تھرپارکر غربت و افلاس، بدانتظامی اور حکومتی بے توجہی کے اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گزشتہ تین برس سے تھرپارکر میں کام کرنے والی 204 میں سے 183 ڈسپنسریوں کو ادویات کے لئے بجٹ فراہم نہیں کیا گیا۔ اس وقت ضلع بھر میں چھ رورل ہیلتھ سنٹر اور دو میٹرنٹی ہوم گذشتہ پانچ برس سے بجٹ کے بغیر کام کر رہے ہیں۔ دیہات میں چکن گونیا، ملیریا اور بعض دیگر بیماریوں میں بہت اضافہ دیکھا گیا ہے۔ غربت کا یہ حال ہے کہ لوگ بمشکل غذائیت سے عاری روکھی سوکھی کھا کر اپنا پیٹ بھرتے ہیں۔ تھرپارکر میں بچوں کی اموات کی اصل وجہ بھی ماؤں کا غذائی قلت کا شکار ہونا ہے۔ دیہات میں ہزاروں حاملہ خواتین اس صورت حال سے دوچار ہیں جو آنے والے دنوں میں بچوں کی اموات میں مزید اضافے کا سبب بن سکتی ہے۔ تھرپارکر کا بڑا حصہ ریگستانی ہے اور یہاں پینے کے تازہ پانی کے ذرائع نہیں ہیں۔ واحد ذریعہ کنویں ہیں جن کا پانی صحت کے لئے مضر ہے انسان اور حیوان ایک ہی جگہ سے پانی پیتے ہیں تھرپارکر میں صحت و صفائی اور وسائل سے محرومی کا یہ حال ہے کہ پچاس فیصد لوگ صابن سے ہاتھ نہیں دھوتے جس کی وجہ سے ہیضہ، آنکھوں اور جلد کی بیماریاں عام ہیں ۔کم عمر بچوں کی ہلاکتوں کی بڑی وجہ کم عمری کی شادیاں اور غذائی قلت ہے حکومت سندھ اور مخیر اداروں کو اس طرف بھی توجہ دینی چاہیے اوردیہی علاقوں میں باقاعدگی کے ساتھ ٹیمیں بھیجی جانی چاہئیں جو صحت و صفائی کے بارے میں شعور پیدا کریں۔

تازہ ترین