• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان مسلم لیگ (ن) میں اب اختلافات کھل کر سامنے آ رہے ہیں ۔ ایک سیاسی جماعت کی حیثیت سے اس کا مستقبل کیا ہے ؟ یہ آج کا اہم سوال ہے ۔لیکن سیاسی جماعتوںمیں ٹوٹ پھوٹ کا یہ سلسلہ یہاں رکتا ہوا نظر نہیں آ رہا ہے ۔ یہ سلسلہ آگے بھی بڑھ سکتا ہے ۔ پاکستان میں پہلی بار سیاسی عمل اس قدر کمزور پڑ گیا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو خود کو سنبھالنا مشکل ہو گیا ہے ۔ سیاسی جماعتیں نہ صرف ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں بلکہ ان کی کوئی سمت بھی نہیں ہے اور ان کی سمجھ میں یہ نہیں آ رہا ہے کہ وہ کیا سیاست کریں ۔اس کے پاکستان کی مستقبل کی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں ۔غیر سیاسی قوتوں کے لئے ایک خلاپیدا ہو رہا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں غیر یقینی کی صورت حال پیدا ہو گئی ہے ۔ پاناما کیس میں سپریم کورٹ کی طرف سے سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو نااہل قرار دینے اور قومی احتساب بیورو ( نیب ) کی طرف سے ان کے خلاف دائر کردہ ریفرنسز میں فرد جرم عائد ہونے کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) میں بڑی ٹوٹ پھوٹ کا آغاز ہو چکا ہے اور اس کے بکھرنے کے حالات پیدا ہو گئے ہیں ۔ جو سیاسی جماعت کچھ عرصہ قبل بہت مضبوط تھی اور عوام کے بھاری مینڈیٹ کے ساتھ پاکستان کی قیادت کر رہی تھی ، اس سیاسی جماعت میں ٹوٹ پھوٹ ایک غیر معمولی عمل ہے ، اس کے بھی پاکستان کی مستقبل کی سیاست پر بہت گہرے اثرات مرتب ہو ں گے ۔ میاں محمد نواز شریف یا ان کے ساتھی اگرچہ مسلسل یہ بیانات دے رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) متحد ہے لیکن پاکستان کی سیاست کا ادراک رکھنے والے ہفتوں میں نہیں بلکہ دنوں میں اس سیاسی جماعت کو اپنے منطقی انجام سے دوچار ہوتا دیکھ رہے ہیں ۔جب کوئی سیاسی جماعت اقتدار میں ہوتی ہے تو اسے متحد رکھنا زیادہ آسان ہوتا ہے کیونکہ حکومت کی وجہ سے اس سیاسی جماعت کے ساتھ لوگوں کے مخصوص مفادات وابستہ ہو جاتے ہیں ۔ لیکن مسلم لیگ (ن) حکومت میں ہوتے ہوئے زبردست اختلافات اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلے اور نیب ریفرنسز میں میاں محمد نواز شریف اور ان کے بچوں پر فرد جرم عائد ہونے کے بعد بہت سے لوگوں کے قدم لڑ کھڑا سکتے ہیں ، جو مخصوص مفادات کی وجہ سے حکمران مسلم لیگ (ن) کے ساتھ تھے ۔
اس سے پہلے سندھ کے شہری علاقوں کی نمائندہ سیاسی جماعت متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوئی ۔ ایک وقت یہ کراچی کی مضبوط ترین اور ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت تھی ، جو اب کئی حصوں میں بٹ گئی ہے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی اگرچہ ایک سیاسی جماعت کے طور پر قائم ہے اور آئندہ نومبر میں اس کے قیام کے50 سال مکمل ہو جائیں گے لیکن وہ عوامی مقبولیت کے لحاظ سے ایسی سیاسی جماعت نہیں رہی ، جو ذوالفقار علی بھٹو یا محترمہ بے نظیر بھٹو کے زمانے میں تھی ۔ عوامی اور قومی جمہوری سیاست کرنے والی دیگر سینٹر لیفٹ ( Centre-left ) ، سینٹر رائٹ ( Centre-right) ، لبرل اور قوم پرست جماعتیں بھی اپنی عوامی مقبولیت کی انتہائی نچلی سطح پر ہیں ۔ پاکستان تحریک انصاف اس وقت سب سے زیادہ مقبول سیاسی جماعت ہے لیکن دیگر سیاسی جماعتوں کے چھوڑے جانے والے خلاکو وہ بھی مکمل طور پر پر نہیں کر سکی ہے ۔ بعض لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ اب تک سیاست کے نام پر جو کچھ ہوا ہے ، اس کی وجہ سے غیر سیاسی قوتوں کا کردار اور ان کی اہمیت میں اضافہ ہو گیا ہے ۔ یہ تو ہونا تھا ۔ جب نظریاتی سیاست ختم ہو جائے ،لوگوں اور کارکنوں کا سیاسی جماعتوں سے نظریاتی رشتہ باقی نہ رہے ، سیاسی جماعتو ں کے اندر مضبوط جمہوری اور سیاسی کلچر مفقود ہو جائے ، جب سیاسی جماعتیں اپنے انتہائی طاقتور قائدین کے من پسند لوگوں کا کلب بن جائیں اور جب سیاست کو لوٹ مار اور کرپشن کا وسیلہ بنا لیا جائے تو ایسا ہی ہوتا ہے ۔ پارلیمنٹ بھی اپنا وہ کردار ادا نہیں کر سکی ہے ، جو کسی جمہوری ریاست کے سب سے بالا دست ادارے کو کرنا چاہئے تھا ۔پارلیمنٹ میں کسی کو بچانے اور کسی کو ہٹانے کے لئے قانون سازی ہو رہی ہے ۔پاکستان مسلم لیگ (ن) اور ایم کیو ایم دونوں ایسی سیاسی جماعتیں ہیں ، جنہوں نے طویل عرصے تک ایسی سیاست کی ، جس سے پاکستان کی ہیئت مقتدرہ ( اسٹیبلشمنٹ ) کو فائدہ ہوا ۔ ان دونوں جماعتوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے ، اس سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ پاکستان کی مقتدر قوتوں نے ملک کی سیاسی حرکیات ( Dynamics ) تبدیل کر دی ہے ۔ اس کے واضح اثرات آنا ابھی باقی ہیں ۔
آج پاکستان کی عدالتیں سب سے زیادہ سرگرم نظر آ رہی ہیں ، جو اس امر کا ثبوت ہے کہ دیگر ادارے خصوصاجمہوری اور سیاسی ادارے اپنا کام نہیں کر سکے ۔ عدالتی فعالیت کا آغاز تب ہوتا ہے ، جب پارلیمنٹ اپنا کردار ادا نہ کرے ، قانون کی حکمرانی نہ ہو ، سیاست دان بدعنوانیوں میں مصروف ہوں اور بیڈ گورننس کی وجہ سے لوگوں کا کوئی پرسان حال نہ ہو ۔ عدالتی فعالیت نے وہ خلاپر کیا ہے ، جو مقننہ اور انتظامیہ نے پیدا کیا ہے لیکن اس کے باوجود سیاسی خلا موجود ہے ، جو وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا جا رہا ہے ۔
جب ملک دو لخت ہو ا تھا تو پوری قوم مایوسی کا شکار تھی ۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اس ملک کے عوام کو ایک امید دی تھی ۔ پھر ضیاء الحق کے طویل مارشل لا کی وجہ سے ملک میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کو فروغ حاصل ہوا ۔ ملک کی سمت تبدیل ہوئی ۔ سیاست اور سماج کا بیانیہ تبدیل ہوا اور قوم ایک بار پھر مایوسی میں چلی گئی ۔ اس وقت محترمہ بے نظیر بھٹو نے قوم کو امید دی اور بتایا کہ ہمارا مستقبل ایک روشن خیال ، ترقی یافتہ ، پرامن اور جمہوری معاشروں سے وابستہ ہے ۔
محترمہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد کے حالات میں ایک بار پھر قوم مایوسی کا شکار ہے لیکن کوئی لیڈر امید دلانے والا نہیں ہے ۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت میں اس پارٹی کے قائد اور دیگر رہنماؤں کے خلاف کرپشن کے مقدمات میں جو کچھ ہو رہا ہے ،اس سے حکومت کی اپنی رٹ بھی کمزور ہو رہی ہے ۔ زیادہ تر سیاسی رہنما اس بات کا انتظار کر رہے ہیں کہ معاملات یوں ہی چلتے رہیں گے اور آئندہ عام انتخابات کے انعقاد کا وقت آجائے گا اور پھر نئے سیٹ اپ میں تمام رہنما اپنے آپ کو حکومت میں دیکھ رہے ہیں لیکن انہیں اندازہ نہیں ہے کہ حالات بہت تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں۔ شاید ان حالات میں انتخابات نہ ہو سکیں ۔ عوام کا سیاسی بیانیہ سیاسی جماعتوں سے مایوسی کا بیانیہ ہے ۔ یہ حالات خود سیاسی جماعتوں نے پیدا کئے ہیں جس میں سیاسی اور جمہوری عمل بھی جاری ہے اور غیر سیاسی قوتوں کے لئے ایک خلابھی پیدا ہوتا رہا ہے ۔ دیکھئے یہ سلسلہ کہاں جا کر رکتا ہے ۔

تازہ ترین