• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زندگی کے رنگ بھی بڑے نرالے ہیں، یہ خوشیوں، غموں، دکھوں، مایوسی میں روشنی اورراستہ تلاش کرنے سے بھرپور ایک طویل تھکا دینے والا ایسا سفر ہے جو اسے حوصلے ،ہمت، صبر سے گزار گیا منزل کو پا گیا۔ دکھ ، درد، غم کی کیفیت میں خوشگوار یادوں میں کھو جانا گویا اس مشکل کیفیت سے نکلنے کا جواز بن جاتا ہے اور انسان میں جینے کی ایک نئی اُمنگ پیداکرتا ہے۔ ماضی کے تلخ تجربات کو خوشگوار حالات میں یاد رکھنا گویا ایک ایسا سبق ہے جو آپ کو پائیدار خوشی مہیا کرتاہے ۔ دوسری صورت میں جو انسان مایوسی میں گھرا صرف ماضی کی تلخ یادوں کی لکیر پیٹتا رہے اس کی منزل دور ہی نہیں مشکل بھی ہو جاتی ہے۔ آج پاکستانی معاشرہ اسی حالت اور کیفیت سے دو چار ہے۔ خوشگوار ماحول کی جستجو میں آگے بڑھنا چاہتے ہیں مگر ماضی کے تلخ تجربات نے ہماری معاشرتی ذہنی کیفیت کو جکڑ رکھا ہے۔ انسان کے ساتھ ساتھ اداروں پر بھی اعتماد کا شدید فقدان ہر طرف نظر آرہا ہے۔ ہر انسان دوسرے کو چور، ڈاکو ہی کی نظر سے دیکھتا ہے۔ ہمارے معاشرے میںبھروسہ اور اعتماد نام کی چیز دستیاب ہی نہیں، تنقید برائے تنقید میرے سمیت ہر پاکستانی نے اپنا فرض سمجھ لیا ہے جو ہم ہیں نہیں وہ ہم بننے کی کوشش کررہے ہیں جس کا کام اسی کو ساجھے سے بہت دور ہمارا معاشرہ شدید اخلاقی گراوٹ کا شکار ہوچکا ہے۔ ایسے حالات سے نکلنے کے لئے کسی نہ کسی پر تو اعتماد کرنا ہی پڑے گا۔ یہ مسئلہ حکومت، فوج اورعدلیہ سے بہت اوپر کی سطح پر صرف اور صرف پاکستان کے عوام نے ہی حل کرنا ہے۔
پاکستان آج جن اندرونی و بیرونی مشکلات کا شکار ہے اس سے نکلنے کی ایک ہی تدبیر ہے کہ ہم اپنے آپ پر بھروسہ رکھیں ۔ اچھے مستقبل کی امید میں ماضی کی تلخیوں کو ذہن پر سوار کرنے کی بجائے صرف اس حد تک ہی فکر مند ہوں جو آپ کی حدود ہیں اور جو اچھا ہے اسے اچھا کہیں جو برا ہے اس کو گالی مت دیں بلکہ اس کی معاشرتی ناکہ بندی کریں، کہنے کا مطلب صرف یہ ہے کہ ایسے شخص کو صاحب اختیار نہ بننے دیں، ووٹ ہی عوام کی طاقت ہے اور اس طاقت کا صحیح استعمال کریں یہ نہ دیکھیں آپ کے سامنے کتنا صاحب حیثیت، طاقت ور اور مالدار امیدوار کھڑا ہے صرف یہ دیکھئے کہ وہ کتنا ایماندار ہے اس کا کردار کتنا پختہ ہے وہ حلقے کے لوگوں کے دکھ درد بانٹنے، مسائل حل کرنے میں کس حد تک مخلص ہے کیا وہ منتخب ایوانوں میں جا کر پاکستان کی آواز بن سکتا ہے اور ایمانداری سے پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ تعلیم یافتہ، فہم و فہراست کا حامل اور مالی و اخلاقی کرپشن سے اپنا دامن بچانے میں کامیاب رہتا ہے۔ کیا آپ جاننا چاہتے ہیں کہ ہم دنیا بھرمیں کیوں رسوا ہو رہے ہیں ہمیں مشکوک نظروں سے کیوں دیکھا جارہا ہے اور ہم آگے بڑھنے کی بجائے پیچھے کیوں دھکیلے جارہے ہیں اور باوجود کوشش کے ایک ناکام ریاست کے طور پر کیوں جانے جاتے ہیں، جو کامیابیاں ہمیں ملنا چاہئیں تھیں وہ ناکامیوں میں کیوں بدل گئیں، تو جواب ایک ہی ملے گا، ہم ’’کرپٹ‘‘ ہوگئے، کرپشن کا ناسور ہمارے معاشرے کو کھا گیا، آج ہر چوراہے پر کرپشن برائے فروخت ہے اور ایسے لگتا ہے پوراپاکستانی معاشرہ ہی ناقابل ضمانت ہے اور تمام ’’صاحب ثروت‘‘ ضمانت پر ہیں جو کمزور ہیں، جن کاکوئی اختیار نہیں ،کوئی سفارش نہیں، جرم بھی ان کا کوئی خاص نہیں وہ جیل میں ہیں یاکھڈے لائن لگ گئے ہیں یہ وہ معاشرہ ہے جہاں دیانت دار سیاست دان یا سرکاری افسر کسی ادارے کا سربراہ ہو یا عام آدمی ہم اسے موجودہ حالات میں ناکام انسان تصور کرتے ہیں جو جتنا کرپٹ ہے اتنا ہی طاقت ور اور بااختیارسمجھا جاتا ہے ۔ آخر یہ کھیل کب تک چلے گا۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی کرپشن کے خلاف مہم سے کسی کو اختلاف نہیں اور ان کا یہ کہنا بھی غلط نہیں کہ اداروں کے سربراہ دیانت دار ہو جائیں تو نظام بدلا جاسکتا ہے لیکن یہ بھی تو ہونا چاہئے کہ اگر نظام کی تبدیلی میں کچھ لوگ اپنا بھرپور کردار ادا کررہے ہیں تو ان کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ان کے کردار کو نمایاں کیا جائے تاکہ دوسرے لوگوں کو بھی حوصلہ ملے اور وہ بھی اس تبدیلی کا حصہ بن سکیں لیکن صورت حال بالکل برعکس ہے۔ یہ وہ معاشرہ ہے جو کسی دیانت دار کو آگے نہیں بڑھنے دیتا اور ایک معمولی سی درخواست پرنہ صرف اسے مایوس کر دیتا ہے بلکہ اس کا کیریئر دائو پر لگ جاتا ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب کے بارے میں ایک عام تاثر یہ ہے کہ وہ سخت گیر منتظم ہیں اور ہر وقت کسی نہ کسی جستجو میں لگے رہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کرپٹ نظام کے خلاف بغاوت کرتے نظر آتے ہیں۔ اسی بغاوت کا نتیجہ ہے کہ وہ گریڈسے بالاتر صلاحیتوں کی بنیاد پر اپنی ٹیم کا انتخاب کرتے ہیں جیسا کہ لاہور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (ایل ڈی اے) ۔ نوجوان افسروں نے اپنے حکام بالا کی قیادت میں اس ادارے کا نظام کمپیوٹرائز کرکے کلرکوں کی اجارہ داری ختم کر دی۔ آج یہ ادارہ اورنج لائن ٹرین اور میٹروبس جیسے بڑے عظیم الشان منصوبوں کا موجد بن رہا ہے اور لاہور کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کررہا ہے۔ اسی طرح محکمہ اطلاعات و ثقافت پنجاب کا نظام کہنہ مشق بیورو کریٹس نے جس طرح جدید خطوط پر استوار کیا اس کی مثال ماضی میں کہیں نہیں ملتی۔ یہی کردار محکمہ اینٹی کرپشن پنجاب کا ہے، یہ وہ محکمہ ہے جس کے بارے میں عام تاثر ہے کہ یہاں کرپشن ختم نہیں پیدا ہوتی ہے لیکن گزشتہ سال کا ریکارڈ دیکھا جائے تو سرکاری محکموں میں کرپشن کے خاتمے میں اس کا کردار بہت نمایاں رہا ہے۔ پٹوار خانے کا نظام ہو یا پولیس نظام کی بہتری، پنجاب میں کچھ نہ کچھ بہتر ہوتا ضرور نظر آرہا ہے۔
مگر سوال یہ ہے کہ کیا سرکاری سطح پر کرپشن فری نظام چلانے کے لئے بڑے گریڈ والے افسروں کی ضرورت ہے یا باصلاحیت افسران کی؟ ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ ہم اصلاح کی طرف بڑھتے ہیں لیکن کرپٹ مافیا جگہ جگہ رکاوٹیں پیدا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔
یہ درست ہے کہ ہم بددیانتی اور بد عنوانی کے عفریت میں جکڑے ہوئے ہیں مگر بہتری کے امکانات روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں۔ گزشتہ نو برس کے دوران پنجاب میں بہت سے تعمیری کام ہوئے۔ لاہور ہی نہیں پنجاب کے بہت سے شہروں کی حالت بدل چکی ہے مگر دیگر صوبے آج بھی بے بسی کی تصویر ہیں۔ خیبرپختونخوا کے دو تین شعبوں میں بہتری آئی ہے مگر پنجاب سے اس کا موازنہ کرنا درست نہیں۔ جہاں تک سندھ کی بات ہے تو اسے درست کرنا کم از کم پیپلزپارٹی کے بس کی بات نہیں مگر لوگوں کو جو شعور حاصل ہوا ہے اس سے سیاست دان بھی چوکنے ہوچکے ہیں۔ اگر ہم سیاسی و اخلاقی رویے بدل لیں اور چور کے بجائے چوکیدار اور قاضی کی طاقت بن جائیں تو ہماری اقتصادی کمر سیدھی ہونے کے امکانات واضح اور روشن ہیں۔ ہم عجیب قوم ہیں ملک سے کرپشن کا خاتمہ بھی چاہتے ہیں اور کرپٹ افراد کی ڈھال کا فریضہ بھی انجام دیتے ہیں۔ اپنی نسلوں کے بہتر مستقبل کے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنا قبلہ درست کرلیں وگرنہ گِدھوں کا کھیل جاری رہے گا۔

تازہ ترین