• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر نے افغان پالیسی کا اعلان جیسے ہی کیا پاکستان نے امریکی تعلقات کے حوالے سے سخت مہری کااظہار کیا اور امریکہ کو واضح پیغام دے دیا کہ ہم نے اپنے حصے کا کام کرلیا، اب امریکہ اور افغان حکومت اپنے حصہ کا کام کرے۔ پاکستان واحد ملک ہے جس نے اتنی پیچیدہ دہشت گردی پر قابو پایا جس میں امریکہ ناکام رہا تھا ۔ پاکستان کے وزیرخارجہ نے امریکہ کا دورہ منسوخ کردیا اور امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کو پاکستان نہ آنے کا پیغام دیا۔ یہ بہت سخت پیغام تھا جس نے امریکی حکام اور خصوصاً فوجی حکام کو پاکستان کی اہمیت و ضرورت کا احساس دلایا کہ پاکستان کے بغیر وہ افغانستان میں آسانی سے کام نہیں کرسکتے۔ چنانچہ پھر وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی کی دورئہ امریکہ جو اقوام متحدہ کے اجلاس کے سلسلے میں تھا کے دوران امریکی نائب صدر مائیک ینس سے ملاقات ہوئی اور ساتھ ساتھ انہوں نے حُسن خوبی کے ساتھ امریکہ کے کئی اداروں میں جو تقاریریں کیں اس سے برف پگھلی پھر وزیرخارجہ پاکستان بھی جو پاکستان میں ذرا متنازع ہوگئے تھے، نے بھی پاکستان کا مقدمہ سلیقے سے پیش کیا اور امریکہ کو آئینہ دکھایا، ایک واقعہ یہ ہوا کہ کینیڈین جوڑے کو امریکی اطلاعات پر راجگال کے علاقے سے بازیاب کرایا تو وہ پاکستان کی تعریفوں کے پُل بندھنا شروع ہوگئے۔ اس سے پہلے وزیراعظم پاکستان کے دورے کے بعد وزیر دفاع جیمز میٹس نے اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستان کو ایک موقع دینا چاہتے ہیں کہ وہ دہشت گردی کے حوالے سے اپنی صلاحیت واضح کرے ،پھر پاکستان کے چیف آف دی آرمی اسٹاف افغانستان کے دورے پر گئے، ماحول خوشگوار رہا۔ وہ ملک جو آزاد نہیں ہے امریکہ کے زیراثر ہے اس کے صدر کے خیال میں پاکستان اب پکڑ میں آگیا ہے اور ہمارے ملک کے چکر لگا رہا ہے مگر صدر افغانستان کو یہ نہیں معلوم کہ پاکستان افغانستان میں امن کا دل سے خواہاں ہے جبکہ وہ پاکستان کے اس جذبے کا غلط مطلب نکال رہے ہیں۔ کینیڈین خاندان جس کے سربراہ جوشوا ہیں انہوں نے کھل کر پاکستان کی حمایت کی اور کہا کہ اُن کو پاکستان نے جس فراست اور دانشمندی سے رہا کرایا، اُس کی وہ تعریف کئے بغیر نہیں رہ سکتے، اُن کا کہنا تھا کہ جس طرح پاکستان نے اُن کو رہا کرانے کے لئے آپریشن کیا ایسا آپریشن اگر امریکی اور کینیڈین کرتے تو کامیاب نہیں ہوسکتے تھے۔ جوشوا کی شخصیت بڑی پیچیدہ ہے، اس نے اس علاقے میں کس حیثیت سے کام کیا، ابھی پردئہ راز میں ہے تاہم اُن کی رہائی پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی پاکستان کو خراج تحسین پیش کرنے سے اپنے آپ کو روک نہ سکے۔ اب امریکی نائب صدر مائیک ینس نے پاکستان کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا فون کرکے شکریہ ادا کیا اور انہوں نے پاکستان کے دورے کی دعوت بھی قبول کرلی۔ اس کے علاوہ امریکی وزیر خارجہ ٹیلرسن بھی پاک فوج کی کارروائیوں کو مثبت انداز سے دیکھ رہے ہیں۔ امریکی محکمہ دفاع یہ اُمید لگائے بیٹھا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرے گا لیکن دہشت گرد تو سارے افغانستان میں ہیں۔ ہمارے یہاں تو آتے جاتے رہتے ہیں۔ امریکی حکومت نے جوشوا کے خاندان کی پاکستان آمد کی اطلاع دی تو پاکستان نے کارروائی کی اور پاکستان نے اس ارادے کا بھی اظہار کیا ہے کہ امریکہ اگر پاکستان کو اس قسم کی پیشگی اطلاع دے گا تو وہ کارروائی کرنے سے گریز نہیں کرے گا۔پاکستان نے امریکہ سے افغانستان میں کارروائی کا مطالبہ کیا اور دہشت گردوں کے ٹھکانے کی اطلاع دی، چنانچہ امریکہ نے منگل کو دو ڈرون حملے کئے اور اب تک کی اطلاعات کے مطابق پاک آرمی اسکول پر حملے کے ماسٹر مائنڈ عمر منصور کے مرنے کی اطلاعات ملی ہیں اور ساتھ ساتھ خالد خراسانی کے اس حملے میں ہلاک ہونے کی خبر آئی ہے۔ اب کالعدم تحریک طالبان کا نیا امیر خلیفہ عثمان منصور کو بنا لیا گیا ہے، جس سے عمر منصور کے مرنے کی تصدیق ہوجاتی ہے۔ شخصیات تو ماری جائیں گی مگر جو سوچ و فکر اُن کے گروپ میں ہے وہ بہرحال اُن کو دہشت گردی کی کارروائی کرواتی رہے گی۔ یہ دوسرا عمر منصور آگیا ہے۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ ان کی سوچ اور اُن کی تحریک کی کمر توڑی جائے، کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایک روز پہلے افغانستان کے ایک صوبے میں خودکش حملہ ہوا اور کئی افراد مارے گئے۔ بشمول اس علاقے کے پولیس چیف کے، اُس کے دوسرے روز ہی دہشت گردوں نے پاکستان کے کوئٹہ شہر میں پولیس کمانڈوز کے مرکز سے بارودی گاڑی ٹکرا دی جس سے گیارہ کمانڈوز شہید ہوگئے۔ اُس حملےکو بدلے کے زمرے میں دیکھا جائے گا کہ دہشت گرد بلوچستان میں مستعدی کے ساتھ موجود ہیں۔ اس کے علاوہ شمالی وزیرستان میں سڑک کے کنارے بم نصب کیا اور سیکورٹی اہلکاروں پر حملے کئے۔ اس کے یہ معنی لئے جائیں گے کہ پاکستان کو اپنے علاقوں میں سخت کارروائی کرنے کی ضرورت ہے اور جو لوگ کارروائی کرتے ہیں اُن پر زیادہ نظر کرنے کی ضرورت ہے، ہم جانتے ہیں کہ پاکستان کے سیکورٹی اداروں نے انٹیلی جنس اطلاعات پر ہزاروں دہشت گردی کے واقعات کو روکا ہے مگر دہشت گردوں کے انداز بدل گئے ہیں، شکلیں بدلی ہیں، اس میں شدت آئی ہے، تعداد بڑھی ہے، اُن کو روکنے کے لئے زیادہ مستعدی کی ضرورت ہے۔ اگر افغانستان میں کوئی واقعہ ہو تو بس سرخ الرٹ اس طرح کا ہو کہ پرندہ بھی پر نہ مار سکے۔ تاہم یہ خوش آئند بات ہے کہ امریکہ نے پاکستان سے رابطہ قائم رکھنے کی ضرورت کو محسوس کرلیا ہے اور وہ کچھ اچھی بات کرنے لگے ہیں۔ مگر اُن کا جھکائو بھارت کی طرف ہے اور ہم افغانستان میں بھارت کے کردار کو تسلیم نہیں کرتے، ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ امریکہ کے بعض ادارے ان دہشت گردوں کی پشت پناہی کررہے ہیں جو پاکستان پر حملہ کرتے ہیں۔ پاکستان افغانستان میں امن چاہتا ہے۔ اگر یہ کارروائی نہ روکی گئی تو ہمارے پاس کئی آپشنز ایسے ہیں اگر ہم ان کو بروئے کار لائیں تو امریکہ اور افغانستان دونوں مشکلات کا شکار ہوسکتے ہیں جن کو بہرحال بروئے کار لانا ہوگا۔ اگر امریکی افغانستان میں رہنا چاہتے ہیں اور موجودہ افغان حکومت سکون سے حکمرانی کرنا چاہتی ہے تو اس کو پاکستان کے ساتھ بھرپور تعاون کرنا چاہئے مگر صرف امریکہ کے اشارے پر نہیں بلکہ خود دل سے امن لانے کی کوشش کرنا چاہئے تو آدھی دہشت گردی اس سے ختم ہوسکتی ہے اور بقیہ آدھی دہشت گردی کا مقابلہ کرنا افغان حکومت کا کام ہوگا جس کے لئے ہماری امداد اُن کو دستیاب ہوگی۔ امریکہ پاکستان کے خلاف کئی بُرے ارادے رکھتا ہے وہ پاکستان کے سی پیک کے خلاف ہے اور اُسے متنازعہ قرار دے رہا ہے مگر جب امریکی کمپنیوں کو اس علاقے میں ٹھیکے دیئے گئے تو اس وقت اس کو متنازعہ نہیں لگا مگر اب چین، پاکستان اقتصادی راہداری کو متنازعہ قرار دے رہا ہے۔ اس روش کو اُس کو بدلنا چاہئے اور بھارت کی غیرضروری حمایت سے گریز کرنا چاہئے کیونکہ بھارت خود آتش فشاں کے دہانے پر کھڑا ہے۔ امریکہ اور پاکستان کے تعلقات طویل عرصے سے ہیں، دونوں ممالک کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے اس لئے ان تعلقات کو ورکنگ تعلقات کی حد تک ضرور رہنا چاہئے۔

تازہ ترین