• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئین کے تحت پاکستان مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت کی مدت یکم جون 2018 کو پوری ہو گی اور پاکستان کی چودھویں قومی اسمبلی اپنی پانچ سالہ آئینی مدت پوری ہونے پر بالکل اسی طرح از خود تحلیل ہو جائے گی جس طرح پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت آئینی مدت پوری ہونے پر ختم ہو گئی تھی۔ اس طرح آئین پاکستان کے تحت ہی قومی اسمبلی کے خاتمے پرصدر مملکت رخصت ہونیو الے وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے نگراں وزیر اعظم کا تقرر کریں گے جو اپنی کابینہ منتخب کرے گا۔ نگراں حکومت الیکشن کے انعقاد کے عبوری عرصے کے دوران امور مملکت سر انجام دے گی جسے اب الیکشن ایکٹ 2017 کے تحت صرف روز مرہ امور نمٹانے جبکہ پالیسی سازی جیسے فیصلوں سے دوررہنے تک محدود کر دیا گیا ہے۔ آئین پاکستان کے تحت ہی قومی اسبلی کی مدت پوری ہونے کے دن کے بعد سے 60 روز کے اندر ملک میں نئے عام انتخابات منعقد کئے جائیں گے ،اسی طرز پر ملک میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات بھی منعقد ہوں گے،انتخابات کے انعقاد کے چودہ روز کے اندر الیکشن کمیشن باضابطہ سرکاری نتائج کا اعلان کرے گا جس کے اکیس دن بعد بعد قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہو گا جس میں اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے انتخاب کے بعد اکثریتی جماعت اپنا قائد ایوان منتخب کر ئے گی ،نو منتخب وزیر اعظم حلف اٹھانے کے بعداپنی کابینہ تشکیل دیں گے جبکہ صوبائی اسمبلیوں کے اجلاس سے وزرائے اعلی اور ان کی کابینہ کی تشکیل تک حکومت سازی بھی اسی طرز پر سر انجام پائے گی اور یوں ملک میں عوام کی طرف سے جمہوری انداز میں منتخب کی گئی حکومتیں وفاق اور صوبوں میں امور مملکت سنبھال کر کام شروع کر دیں گی۔ پاکستان جیسے ملک میں آئین کی پاسداری کی صورت میں یہ سب کتنا خوش کن لگتا ہے کیوں کہ ستر سالہ تاریخ نشیب و فراز کی ایسی کہانیوں سے بھری پڑی ہے جس میں آئین کو کبھی ردی کا ٹکڑا کہا گیا تو کبھی موم کی ناک سمجھا گیا۔ یہ تو ابھی کل کی بات ہے کہ پرویز مشرف جیسے آمر نے تو حد ہی کردی اور یہاں تک کہہ دیا کہ ملک کو بچانے کے لئے اگر تھوڑی دیر کے لئے آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ بھی کر لی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ یہی وہ تلخ ماضی ہے کہ آئین میں حکومت کی تبدیلی اور مدت کا تعین ہونے کے باوجود عوام سے خواص تک اور اپوزیشن سے حکمرانوں تک کسی کو یقین نہیں ہے کہ ملک میں عام انتخابات یکم جون سے یکم اگست کے درمیان منعقد ہوں گے۔ گلی محلوں سے چوکوں،چوراہوں تک، ڈرائنگ روموں سے اقتدار کے ایوانوں تک اور روایتی میڈیا سے سوشل میڈیا تک ہر طرف ایک ہی بحث جاری ہے کہ ن لیگ کی حکومت آج گئی کہ کل، مارچ میں سینیٹ کے الیکشن سے پہلے نیا سیٹ اپ تشکیل دے دیا جائے گا، ٹیکنوکریٹ حکومت قائم کی جائیگی یا قومی حکومت کا ڈول ڈال دیا جائے گا۔ ماضی کی طرح اس بار بھی یہ زبان ذد عام ہے کہ اب مکمل احتساب کے بعد ہی حکومت سیاست دانوں کے حوالے کی جائے گی۔ اور تو اور اس ملک میں تو ایسے دانشور بھی بہت مقبول ہیں جن کی زبان میں مارشل لا کی صدائیں دینے کے دوران بھی لکنت نہیں آتی۔ اسی دوران ملک میں ایک طرف انتخابات منعقد کرانے کی صورت میں خون خرابے سے ڈرایا جارہا ہے تو دوسری طرف قبل از وقت انتخابات کے مطالبات بھی کئے جا رہے ہیں اور یہ مطالبہ کرنے میں سب سے آگے پاکستان تحریک انصاف ہے جسے اپنے احتجاج کے شغل سے اتنی فرصت ہی نہیں مل پا رہی کہ وہ نچلی سطح تک اپنی جماعت کے داخلی انتخابات کے انعقاد کو ہی مکمل کر سکے۔ خیر جتنے منہ اتنی باتیں لیکن ایسی ٹامک ٹوئیاں مارنے والے کسی بھی شخص سے جب صرف اتنا پوچھا جائے کہ بھائی ملک میں منتخب جمہوری حکومت کام کر رہی ہے، قومی اور صوبائی اسمبلیاں بدستور وجود رکھتی ہیں ،میاں رضا ربانی جیسے جمہوریت پسند کے زیر سایہ سینیٹ اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہے،نواز شریف جیسے مقبول وزیر اعظم کی رخصتی کے باوجود پاکستان مسلم لیگ ن اقتدار میں ہے، عدالتیں اپنا کام کر رہی ہیں، ماضی میں سب کچھ تلپٹ کر دینے والے بھی بارہا یقین دہانیاں کراچکے ہیں کہ وہ ملک میں جمہوریت کے تسلسل کے حامی ہیں،کسی ٹیکنوکریٹ یا قومی حکومت کے خفیہ منصوبے پر کام نہیں ہو رہا تو جو آپ کہہ رہے ہیں یہ سب کیسے ممکن ہو گا ،آپ کی خواہش خبر میں کیسے ڈھل سکتی ہے، اگر نام نہاد اور فرضی کرداروں کے ذریعے اپنے دل کے پھپھولے پھوڑنے والوں سے معلومات میں اضافے کے لئے یہ بھی استفسار کر لیا جائے کہ اس امر کی کیا ضمانت ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں مسلم لیگ ن اکثریتی جماعت نہیں بن پائے گی تو اس پر بھی وہ ادھر ادھر دیکھنا شروع کردیتے ہیں۔ ملک بھر میں جاری بحث اور آئینی مدت سے پہلے حکومت کے خاتمے کی امید یں لگانے والوں کے لئے جائزہ لیتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی موجودہ حکومت کو قبل از وقت آئینی طریقے سے کیسے ختم کیا جا سکتا ہے،قومی یا ٹیکنوکریٹ حکومت کیسے تشکیل دی جا سکتی ہے۔ آئین پاکستان کے تحت پہلا طریقہ یہ ہے کہ صدر آرٹیکل 58 ایک کے تحت قومی اسمبلی کو تحلیل کر دیں لیکن اٹھارویں ترمیم کے بعد صدر کا قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا صوابدیدی اختیار ختم کیا جا چکا ہے اس لئے وہ ایسا صرف وزیر اعظم پاکستان کی ایڈوائس پر ہی کر سکتے ہیں لیکن وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی ایسا کیوں کریں گے کہ وہ صدر مملکت کو ایسی ایڈوائس کریں گے۔ آئین میں درج دوسرا طریقہ یہ ہے کہ چونکہ وزیر اعظم آرٹیکل 91 کی ذیلی دفعہ سات کے تحت صدر کی خوشنودی تک عہدے پر برقرار رہ سکتا ہے اور اگر صدر مملکت کو اطمینان ہو جائے کہ وزیر اعظم ارکان کا اعتماد کھو چکا ہے تو وہ قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کر کے وزیر اعظم کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ سکتا ہے جس میں ناکامی کی صورت میں قائد ایوان فارغ ہو جائے گا اوراگر مسلم لیگ ن کی صفوں میں اس قدر انتشار برپا ہو جائے کہ کوئی نیا امیدوار بھی اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے کے قابل نہ ہو تو پھرآرٹیکل 48 کے تحت صدر اپنی صوابدید پرقومی اسمبلی کو تحلیل کر سکتا ہے،اس طرح ملک میں نئے انتخابات ممکن ہیں لیکن یہاں پر بھی ن لیگ کی جس قدر توڑپھوڑ مطلوب ہے جو فی الوقت ممکن دکھائی نہیں دیتی۔ادھرصدر مملکت بھی مسلم لیگ ن اور بالخصوص میاں صاحب کے ممنون ہیں۔آئین میں درج تیسرے طریقے کے مطابق صدر مملکت آرٹیکل 232 اور 234 کے تحت ملک یا کسی ایک حصے کو درپیش کسی جنگ،بیرونی جارحیت یا داخلی خلفشارکی بنیاد پر ہنگامی حالت کا نفاذ کر سکتے ہیں تاہم اس کےاطلاق کے لئے صوبائی اسمبلی کی قرارداد ضروری ہو گی تاہم اگرصدراز خود ایسا کرے تودس دن کے اندر قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظوری لینا ہو گی۔ ہاں ہنگامی حالت نافذ کرنے کی صورت میں پارلیمنٹ کے ذریعے قومی اسمبلی کی معیاد میں ایک سال کی توسیع کی جا سکتی ہے اس طرح اس طریقے سے بھی درکار نتائج حاصل کرنا نا ممکن ہے۔ چوتھے طریقے کے تحت مردم شماری کے عبوری نتائج کی روشنی میں نئی حلقہ بندیوں اورانتخابی فہرستوں کی تیاری کو جواز بنا کر انتخابات کے انعقاد میں تاخیر کی باتیں کی جا رہی ہیں لیکن آئین کا آرٹیکل 254 واضح کہتا ہے کہ کوئی بھی فعل یا امر اس وجہ سے کالعدم یا غیر موثر نہ ہو گا کہ یہ مخصوص مدت میں مکمل نہیں کیا گیا۔اس طرح آئین میں موجودہ حکومت کو یکم جون سے پہلے رخصت کرنے اورقومی یا ٹیکنوکریٹ حکومت کے قیام کی رتی برابر گنجائش موجود نہیں لیکن پھر بھی کسی کو شک ہے تووہ آرٹیکل 6 پر ایک نظر ڈال لے جس میں دو الف کے تحت یہ ذیلی شق بھی ڈالی جا چکی ہے کہ سنگین غداری کا عمل کسی بھی عدالت کے ذریعے بشمول عدالت عظٰمی اور عدالت عالیہ جائز قرار نہیں دیا جائے گا۔

تازہ ترین