• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سیاسی منظر نامہ، 2700 لاپتہ افراد کی بازیابی غیر معمولی واقعہ

اسلام آباد( طاہر خلیل) حال ہی میں قومی احتساب بیورو کے چیئرمین مقرر ہونے والے لاپتہ افراد کے لئے قائم کمیشن کے سربراہ جسٹس(ر) جاوید اقبال بتارہے تھے کہ زینت شہزادی کی طویل گمشدگی ہمارے لئے ایک چیلنج بنی ہوئی تھی۔ زینت شہزادی ایک غیر معروف صحافی جو لاپتہ افراد کو ڈھونڈتے خود لاپتہ ہوگئی تھی، 24 سالہ خاتون صحافی کو دو سال پہلے 19 اگست 2015 کو لاہور سے اغوا کیاگیا۔ اس کااغوا بھی داستان ہے اوربازیابی بھی، لاہور کی مصروف شاہراہ سے جب زینت کا اغوا ہوا تو یوں سب کو چپ لگی گویا سانپ سونگھ گیا ہو۔ صحافتی تنظیمیں،سول سوسائٹی، این جی اوز سب خاموش ، لیکن جسٹس جاوید اقبال نے زینت شہزادی کی گمشدگی پر متعلقہ اداروں کے سامنے کئی سوال اٹھا دئیے کیونکہ جس روز خاتون صحافی کا اغوا ہوا اس واقعے سے اگلے دن زینت کی جبری گمشدگیوں کے کمیشن میں پیشی تھی۔ اپنے گھرانے کی واحد کفیل زینت اغوا سے پہلے بھارتی شہری حامد انصاری کی پاکستان میں گمشدگی کے کیس پر کام کررہی تھی، خفیہ اداروں نے جسٹس جاوید اقبال کے کمیشن کو خاتون صحافی کے اغوا کے واقعے سے لا تعلقی کا اظہار کیا ،پانچ روز پہلے18 اکتوبر کی شب زینت کو پاک افغان سرحد کے قریب سے بازیاب کروایا گیا تو متعلقہ حکام نے سب سے پہلے جسٹس جاوید اقبال کو خبر دی، زینت کو بحفاظت لاہور اس کے گھر پہنچایا گیا تو جسٹس جاوید اقبال نے فون کرکے ان کی والدہ کومبارکباد دی اور دوسری فون کال حقوق انسانی کمیشن کے چیئرمین آئی اے رحمن کو کی گئی۔ آئی اے رحمن نے زینت کی والدہ سے بات کرکے تصدیق کی۔ جسٹس(ر) جاوید اقبال کاکہناتھا کہ کچھ غیر ریاستی عناصر اور ملک دشمن خفیہ اداروں نے انہیں اغوا کیا تھا اور انہیں ان کی تحویل سے ہی بازیاب کروایا گیا۔ جاوید اقبال کے مطابق زینت کی رہائی میں بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کے قبائلی عمائدین نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ زینت شہزادی کا چھوٹا سا خاندان ٹوٹ پھوٹ کا شکارہوگیا۔ اس کی والدہ دو سال تک امید و بیم کے درمیان جھولتی رہی اس کے چہیتے بھائی صدام نے گزشتہ سال بہن کی طویل گمشدگی سے دلبرداشتہ ہوکرخودکشی کرلی تھی اور زندگی کے آخری دن اس نے اپنی ماں سے کہاتھا کہ ’’ آپی اب نہیں آئے گی‘‘ لیکن اس کی ماں پولیس والوں کو کہتی رہی کہ میں اپنی زینت کا انتظار کروں گی، اس کی مغفرت کےلئے ابھی دعا نہیں کروں گی۔ بالاخرماں کی دعائیں رنگ لائیں اور دوسال بعد بیٹی ماں کو مل گئی۔ زینت کی بحفاظت بازیابی نےبعض حلقوں کے اس تاثر کی نفی کردی ہے کہ انہیں سکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے زبردستی اٹھایا گیا تھا۔ لاپتہ افراد کے لئے قومی کمیشن کے سربراہ جاوید اقبال نے آئین اور قانون کی بالادستی کے لئے کبھی اصولوں پرسمجھوتہ نہیں کیا، پاکستان میں جبری گمشدگیوں کے واقعات پر اندروانی اور بیرونی دبائو کی وجہ سے حکومت نے اس مسئلے کے حل کے لئے 2011 میں جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں خصوصی کمیشن قائم کیا تھا۔ اس کمیشن کے پاس گمشدگیوں کے 3 ہزار سے زیادہ کیس تھے سول اورملٹری ایجنسیوں کے تعاون سے 2700 لاپتہ افراد کوبازیاب کرانے میں کامیابی غیر معمولی واقعہ ہے اور زینت شہزادی کی بحفاظت بازیابی جسٹس جاوید اقبال کی لائق ستائش کاوشوں کا حصہ ہے۔
تازہ ترین