• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وسائل کے تحفظ کیلئے انسان بتدریج حسد کا شکار ہو جاتا ہے، تحقیق

کراچی (نیوز ڈیسک) کسی بھی انسان میں حسد کی وجہ سے خوف، عدم تحفظ اور غصے کے جذبات پیدا ہو سکتے ہیں حتیٰ کہ شدید حسد تشدد پر بھی آمادہ کر سکتا ہے۔ یہ بات ایک نئی تحقیق میں سامنے آئی ہے۔ سائنسدانوں نے یک زوجیت (مونوگیمَس) کے اصول پر کار فرما ذہنوں پر تحقیق کرتے ہوئے اس جذبے کو سمجھنے کی کوشش کی ہے جو کسی بھی جوڑے کو ایک ساتھ رہنے یا پھر ان کی علیحدگی کا سبب بنتا ہے۔ تحقیق کے دوران انہوں نے دماغ میں دو ایسے مقامات (سنگیولیٹ کورٹیکس اور لیٹرل سیپٹم) کی نشاندہی کی جو حسد کی وجہ سے متحرک ہوجاتے ہیں۔ یہ دونوں مقامات کسی بھی بیرونی چیلنج سے نمٹنے کے حوالے سے ایک تعلق قائم کرلیتے ہیں۔ سائنسدانوں کی ٹیم نے بتایا ہے کہ حسد ارتقائی لحاظ سے فائدہ مند ہو سکتا ہے اور ہم نے یہ جذبہ اپنے آبائو اجداد سے وراثت میں حاصل کیا ہے کیونکہ یہ ہمیں اپنے دستیاب وسائل جیسا کہ اپنے گھروں اور بچوں کو محفوظ بنانے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ حسد کی حیاتیاتی تشریح اور جوڑے کے درمیان طویل مدتی تعلق کے حوالے سے اس کے ارتقائی کردار کے حوالے سے کوئی تفصیلی معلومات موجود نہیں۔ اگرچہ یہ منفی جذبہ ہو سکتا ہے لیکن سماجی رابطے قائم کرنے کیلئے یہ مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔ اس جذبے کی مدد سے ہم کسی بھی تعلق کے حوالے سے یہ اشارہ حاصل کر سکتے ہیں کہ کہاں ہمیں توجہ دینی چاہئے اور کہاں توجہ نہیں دینی چاہئے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کی ڈاکٹر کیرین بیلز کا کہنا ہے کہ حسد محسوس کرنا ارتقائی لحاظ سے سودمند ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ ہمارے بالغ رومانوی تعلقات میں کئی ایسے وسائل شامل ہوتے ہیں جنہیں بیرونی دنیا سے خطرات ہو سکتے ہیں۔ اپنی تحقیق میں سائنسدانوں نے بندروں کی ایک خاص قسم (ٹی ٹی مونکی) کا سہارا لیا۔ یہ جانور ایک شادی کے اصول (مونوگیمی) پر یقین رکھتے ہیں اور اس میں نر کا مادہ کے ساتھ گہرا اور مضبوط رشتہ جڑتا ہے۔ ڈاکٹر کیرین بیلز کے مطابق، ٹی ٹی مونکی کے جوڑے کیلئے اہم ترین وسائل میں ان کا علاقہ، بچوں کی مشترکہ دیکھ بھال وغیرہ شامل ہیں اور اگر انہیں وسیع پس منظر میں دیکھا جائے تو انسان بھی ایسا ہی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حسد اس صورت میں دلچسپ انداز سے اہمیت کا حامل جذبہ بن جاتا ہے جب یہ رومانوی تعلق سے جڑا ہو اور گھریلو تشدد کے معاملے میں بھی۔ ٹی ٹی مونکی پر کی گئی تحقیق میں معلوم ہوا کہ یہ بندر انسانوں کی طرح اس وقت مایوس اور گم سم نظر آتے ہیں جب ان کا پارٹنر ان کے قریب نہیں ہوتا۔ تحقیق میں مادہ کو جب کسی اجنبی بندر کے قریب رکھا گیا تو اس کے پارٹنر میں دماغ میں حسد کے جذبات محسوس کیے گئے۔ دماغی اسکین سے معلوم ہوا کہ حسد کے وقت کون سے حصے زیادہ متحرک تھے۔ اس دوران بندروں میں ہارمونز کی سطح میں بھی اتار چڑھائو دیکھا گیا۔ ایسے بندر جنہوں نے اپنی مادہ کو کسی اجنبی بندر کے ساتھ زیادہ وقت تک دیکھا ان کے ہارمونز میں کارٹی زول کی مقدار زیادہ ریکارڈ کی گئی۔ یہ ہارمون اس وقت خارج ہوتا ہے جب کوئی جاندار شدید سماجی دبائو میں ہو۔
تازہ ترین