• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکشن سے پہلے احتساب کامطالبہ ٹیکنوکریٹس کے حامیوں کی حوصلہ افزائی

اسلام آباد( طارق بٹ )بعض سیاسی جماعتیں جنہیں آئندہ انتخابات میں کسی شاندار مستقبل کی توقع نہیں ہے ، وہ احمقانہ مطالبات اور تنبیہات کے ساتھ میدان میں نکل رہی ہیں اور ایک کسی ایسے منظر نامے کی خواہش رکھتی ہیں جو آئین و قانون کے خلاف ہو۔ ان جماعتوں نے اس مخصوص طاقت کا نام لینے سے ہمیشہ گریز کیا ہے جسےکہ وہ چاہتی ہیں کہ اُن کی آواز سننی چاہیے۔ واضح طور پر یہ اشارہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب ہے کہ وہ دخل اندازی کرے۔ لیکن وہ یہ حقیقت نظر انداز کردیتے ہیں کہ آئین کی موجودگی میں ہر عمل اسی کے مطابق کیا جاتا ہے۔ جس چیز پر ان کا سارا زور ہے وہ آئین کے مخالف اور قطعی غیر آئینی ہے اور اسکی کی سخت سزا بھی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ جماعت اسلامی اور فنکشنل لیگ محدود عوامی نمائندگی رکھتی ہیں ۔ جماعت اسلامی کے ووٹ بنک میں عام اورضمنی انتخابات میں شدیدکمی دیکھنے میں آئی جبکہ فنکشنل لیگ صرف سندھ کے چند اضلاع تک محدود ہے۔ حیرت انگیز طور پر فنکشنل لیگ کے سربراہ کا ایک بھائی وفاقی کابینہ کا رکن ہے ۔ اس نے اسطرح کی باتوں کا کبھی اظہار نہیں کیا۔مذکورہ دونوں جماعتوں میںسے کوئی بھی اس قابل نہیں کہ وہ انتخابی عمل سے چھٹکارا پانے کے لیے کسی غیر آئینی اقدام میں ملوث ہو سکے۔ جیسا کہ امیر جماعت اسلامی سراج الحق کہہ چکے ہیں کہ ان کی جماعت 2018کے انتخابات سے قبل تمام کرپٹ عناصر کا احتساب چاہتی ہے۔ یہ نعرہ متعددبار ماضی میں بھی بلند کیا جا چکا ہے۔ ہر دفعہ ہی یہ نعرہ اس لیے لگایا جاتا رہا کہ کسی طرح انتخابات کو التواء میں ڈالا جائے کیونکہ ایسے عناصر کو ڈر ہوتا تھا کہ وہ الیکشن میں کوئی کارکردگی نہیں دکھا سکتے۔جب کبھی اس مطالبے پر عمل کیا گیا ملک کئی سالوں کے لیے اندھیروں میں چلا گیا۔ یہاں تک کہ فوجی آمریت کے بعد بھی اس عمل سے باہر آنے کے لیے کئی سال لگ گئے۔ اگر جمہوری عمل جاری رہتا ہے اور آئندہ انتخابات اسی کے تحت آئینی طور پر انجام پاتے ہیں تو سراج الحق کا مطالبہ کسی عام فہم انسان کے لیے بالکل قابل اعتبار حیثیت نہیں رکھتا ۔ تمام رہنمائوں کا احتساب بالکل اس طرح نہیں ہو سکتا جیسے جماعت اسلامی کے امیر چاہتے ہیں۔ پہلے تو ان تمام کرپٹ لیڈرز کی پہچان کی جائے کہ وہ کون کون سے ہیں پھر ان کا احتساب کیا جائے، جس کے لیے عشرے نہیں تو کئی سال ضرور درکار ہوںگے۔ درحقیقت سراج الحق کے مطالبے کا پوشیدہ ایجنڈہ یہی ہے کہ کسی طرح انتخا بات کو ملتوی کیا جائے۔ جس احتساب کے لیے سراج الحق اوردوسرے لوگوں نے ہاتھ پائوں مارے اس کا واحد مقصد سابق وزیر اعظم نواز شریف کا راستہ روکنا تھا ور یہ مقصد حاصل ہو چکا ہے۔ اکثر سیاستدانوں کی طرف سے یہ نعرہ بلند کیا جاتا ہے کہ پاناما پیپرز میںآنے والے دیگر 400افراد کا بھی احتساب کیا جائے یہ بالکل ایک مضحکہ خیز مطالبہ ہے ان میں سے کسی کو چھوا تک نہیں گیا اور نہ ہی آنےو الے سالوں میں کسی کا کچھ ہو سکتا ہے۔ دوسروں کی طرح سراج الحق بھی یہی مطالبہ دہراتے رہیں گے لیکن ہو گا کچھ بھی نہیں ۔لیکن سراج الحق اور دیگر سیاستدان کے اس نعرہ بلند کرنے کا ایک ہی مقصد ہے کہ شائد کچھ ووٹر ان کی طرف متوجہ ہو جائیں۔ ضمنی انتخابات کے نتائج نے البتہ یہ ثابت کردیا ہے کہ ووٹرز ان مہم جوئوں کا اصل ایجنڈا جانتے ہیں۔فنکشنل لیگ کے سربراہ پیر پگاڑا دوسرے رہنماء ہیں جو چاہتے ہیں کہ آئندہ الیکشن نہ ہوسکیں اور انہیں ڈر ہے کہ اس سے لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال بدتر ہو سکتی ہے ۔ ان کی پارٹی سندھ کے ایک چھوٹے علاقہ تک محدود ہے اور اسےووٹرز کی کمیابی کا سامنا ہے۔ جبکہ پیر پگاڑا کہتے ہیں کہ اگر انتخابات ہوئے تو خون خرابا ہوگا، وہ اکثر یہ بات دہراتے رہتے ہیں کہ سندھ کے عوام کے لیے واحد حل ایک گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس ہے۔ پیر پگاڑا کا جھکائو پاکستان تحریک انصاف کی جانب نظر آتا ہے اور اکثر انہوں نے عمران خان اور دوسرے لیڈروں کے ساتھ رابطے کی بات بھی کی ہے۔ سندھ میں پیپلز پارٹی کو ہرانے کے لیے فنکشنل لیگ، پی ٹی آئی اور دوسری چھوٹی جماعتوں کے درمیان انتخابی اتحاد بھی خارج از امکان نہیں ہے۔اگرچہ سراج الحق اور پیر پگارا کے کمزور ووٹ بنک کو دیکھتے ہوئے ان کے بیانات کو وہ اہمیت شائد نہ دی جائے ،لیکن یہ بیانات ان طاقتوں کو ضرور حوصلہ بخشیں گے جو جمہوری عمل کی راہ میں روڑے اٹکانا چاہتی ہیں اور آئندہ عام انتخابات سے متعلق شکوک پیدا کرنا چاہتی ہیں ۔ الیکشن سے پہلے احتساب کامطالبہ بھی ان عناصر کی حوصلہ افزائی کے لیے کافی ہے جو ملک میں ٹیکنوکریٹ گورنمنٹ لانا چاہیتے ہیں۔ جو تین سال میں سسٹم کو صاف کرے گی۔ لیکن ان تمام سکیموں کی آئین میں کوئی گنجائش نہیں ہےجو کہ سپریم ہے اور اس سے روگردانی آرٹیکل 6کے تحت غداری کے ضمرے میں آتی ہے۔
تازہ ترین