• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عقیدہ ختم نبوتﷺ … کیاانتہاپسندی ہے؟...تحریر:قاری عبدالرشید …اولڈہم

ان دنوں مسلمانوں کا بنیادی اجتماعی عقیدہ ختم نبوتؐ ایک بار پھر موضوع بحث ہے۔ مساجد سے لے کر حکومتی ایوانوں تک اور میڈیا کے ٹاک شوز اور اخبارات کے کالموں میں اس پر لکھا اور بولا جا رہا ہے۔ ہمارا گزشتہ کالم بھی اسی موضوع پر تھا۔ مورخہ16اکتوبر2017کو روزنامہ جنگ لندن میں ایک کالم نظر سے گزرا جس میں کالم نگار نے قومی اسمبلی آف پاکستان میں سابق وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے داماد کیپٹن صفدر کی تقریر کو موضوع بنا کر جو کچھ بھی قومی روزنامہ میں شائع کروایا ہے۔ ہم اس کالم میں اسی تحریر کو حقائق کے آئینے میں پرکھنے کی کوشش کریں گے تاکہ قارئین جان سکیں کہ جو کچھ قومی اسمبلی میں پیش کی گئی قراردادوں میں لکھا گیا ہے کیا اس کی زد پاکستان میں موجود تمام غیر مسلم اقلیتوں پر پڑتی ہے؟ کیا وہ قراردادیں انتہا پسندی کو فروغ دیتی ہیں؟ کیا پاکستان میں غیر مسلم غیر محفوظ ہیں؟ وغیرہ وغیرہ کالم نگار نے لکھا کہ ’’اس تقریر سے اقلیتوں میں ایک بے چینی کی کیفیت ہے، ہم پوچھتے ہیں اس تقریر میں اور پیش کی گئی قراردادوں میں اقلیتوں کا ذکر ہی نہیں تو ان میں بے چینی کیوں؟ آگے لکھتے ہیں کہ ’’اس سے قوم میں تعصب اور انتشار پھیلے گا اس لئے کہ یہ تقریر پاکستان کے معتبر فورم قومی اسمبلی میں کی گئی‘‘ ہم پوچھتے ہیں جناب والا یہ تقریر پارلیمنٹ میں ہونے سے اگر قوم میں تعصب اور انتشار پھیلنے کا آپ کو اتنا ہی زیادہ اندیشہ تھا یا ہے تو آپ کا قلم اس وقت حرکت میں کیوں نہ آیا جب اسی پارلیمنٹ میں ترمیمی بل منظور ہو رہا تھا؟ جب مسلمانوں کے اجتماعی عقیدہ پر نقب لگائی جا رہی تھی۔ اسی پارلیمنٹ سے منظور1974کے فیصلے کو تبدیل کیا جا رہا تھا۔ اس وقت آپ کو مسلم قوم میں پیدا ہونے والی بے چینی اور ان کی مذہبی تکلیف نظر کیوں نہ آئی؟ رہی بات پارلیمنٹ میں تقریر کرنے کی تو ترمیمی بل اگر پالیمنٹ میں منظور ہوا تھا تو اس کے جواب میں تقاریر بھی پارلیمنٹ میں نہ ہوتیں تو کہاں ہوتیں؟ پارلیمنٹ سے باہر علماء کرام جو اپنا درد دنیا کو دکھا رہے تھے ان کی کون سن رہا تھا؟  آگے کالم نگار لکھتے ہیں کہ 1974کو پاکستان میں قانونی طور پر احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جا چکا ہے اور وہ اب اقلیت کا حصہ ہیں، ہم پوچھتے ہیں کہ کیا وہ احمدی اس فیصلے اور قانون کو تسلیم کرتے ہیں؟ اگر تسلیم کرتے ہیں تو خود کو مسلم، کیوں کہتے ہیں؟ اگر تسلیم نہیں کرتے تو پھر تعصب اور انتشار پھیلانے کی ذمے دار وہ ہوئے جوکہ پاکستان کے آئین و قانون کو نہیں مانتے تو یہ تلقین تو پھر ان کو ہونی چاہئے، ناں کہ مسلمانوں کو جو اپنے عقیدے کے گرد پہرہ دیکر اس عقیدہ ختم نبوتﷺ  پر حملہ آوروں(احمدیوں) سے خود کو اور اپنے نسلوں کو بچا رہے ہیں۔1974کے فیصلے کو تسلیم نہ کرنے اور1984کے آرڈیننس سے بغاوت کرکے ایک تو پاکستان کا قانون تسلیم نہیں کرتے اور جب کسی جگہ قانون کی گرفت میں آتے ہیں تو دنیا میں شور کر دیتے ہیں کہ ہم پر پاکستان میں ظلم ہو رہا ہے۔ ہمیں سیاسی پناہ چاہئے۔ فاضل کالم نگار ہی بتا دیں کہ دنیا میں کوئی ایسا ملک ہے جو قانون شکنوں سے رعایت کرتا ہو؟ اگر نہیں تو پاکستان پر الزام کیوں؟رہی بات احمدیوں پر باقی غیر مسلم قومیتوں کو قیاس کرنے کی تو اس کو کہتے ہیں، قیاس مع الفارق، پاکستان میں قادیانیوں کا مسئلہ بالکل مختلف ہے جب تک یہ پاکستان کی اسمبلی کے فیصلے کو تسلیم کرکے کالم نگار کی تحریر کے مطابق غیر مسلم اقلیتوں میں خود کو شمار نہیں کرتے۔ ملک میں بسنے والے مسلمانوں اور ملکی قانون ان کو ’’مسلمانوں کا نام اور اسلام کی اصطلاحات استعمال‘‘ کرنے کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں؟ اور یہ انتہاء پسندی یا تعصب نہیں، اگر یہ انتہاء پسندی ہے یا تعصب ہے تو پھر اس سے کوئی ملک اور حکومت بری نہیں جو ملکی قوانین پر سختی سے عمل کرواتی ہے۔ ہاں یہ تعصب اور انتہاء پسندی و تنگ نظری ضرور ہے کہ مذہب اسلام کی مخالفت میں انسان یہ تک نہ دیکھے کہ قانون توڑ کون رہا ہے اور قانون کی پاسداری کون کروا رہا ہے؟ اس لئے ان کی حمایت میں لکھا اور بولا جائے کہ وہ مسلمانوں اور مذہب اسلام کو خوب نقصان پہنچا رہے ہیں، لہٰذا اپنا وزن بھی ان کے پلڑے میں ڈال کر انتہاء پسندی کی گردان شروع کر دو حق و ناحق کو بالکل بھی نہ دیکھو۔ جہاں تک بات ہے پاکستان کے دفاع میں غیر مسلم اقوام کی قربانیوں کی تو اس کا کون منکر ہے؟ اگر انہوں نے جنگوں میں ساتھ دیا ہے تو پاکستان ان کا ملک تھا اور اپنے ملک کی حفاظت ہر شہری کی بنیادی ذمے داری ہے۔ رہی بات چند قادیانیوں کی جن کے نام آپ نے اپنے کالم میں لکھے ہیں تو آپ یہ بتائیں یہ ان کا ملک پر احسان تھا یا کہ ملک پاکستان کا ان پر؟ ان کے ہاتھوں میں پاسپورٹ کس ملک کا تھا جب وہ انعام وصول کر رہے تھے؟ یہ تو ملک اور اہلیان ملک کی کشادہ ظرفی تھی جنہوں نے ان کو یہ اعزاز دلوائے۔ پھر بھی تنگ نظری کا طعنہ اسلام اور پاکستان پر سمجھ سے باہر ہے۔اگر پاکستان کی حکومت نہ چاہتی تو یہ لوگ کیسے باہر جاتے پھر یہ اعزاز پاتے؟ اگر کوئی کردار ادا کرتا ہے تو ہم اس کو ملک کا نام روشن کرنے والا تو کہنا شروع کر دیتے ہیں لیکن جس ملک نے اس کو یہ شہرت دی اس کا نام نہیں لیا جاتا، گویا کہ فرد ملک پر بھاری ہو جاتا ہے۔ اس روش پر بھی غور کی ضرورت ہے۔ کرکٹ کی ٹیم باہر جاتی ہے۔ میچ جیت جاتی ہے تو یہ دیکھیں اس ٹیم کو دوسرے ملک میں بھیجا کس نے؟ اس کے اخراجات کس نے برداشت کئے؟ ملک کو چھوڑ کر ٹیم اور اس کے کپتان کے چرچے کیا یہ ملک سے انصاف ہے؟ جہاں تک بات پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ کی ہے تو یہ بتائیں اس کو وزیر خارجہ کا منصب اس کی احمدی کمیونٹی نے دیا تھا یا کہ حکومت پاکستان نے؟ یہ وہی ہے جس نے قائد اعظم کا جنازہ بھی نہیں پڑھا تھا۔ اگر حکومت نے دیا تو پھراحمدی، احمدی کا راگ کیوں الاپا جاتا ہے؟ قائداعظم یونیورسٹی کے شعبہ فزکس سے ڈاکٹر عبدالسلام کا نام ہٹوانے کا مطالبہ تنگ نظری یا انتہا پسندی نہیں بلکہ یہ حقیقت پر مبنی ہے کہ وہ شخص، متنازعہ ہے اور قومی اداروں میں متنازع لوگوں کے نام مزید تنازعوں کا سبب بنتے ہیں۔رہی بات شیخوپورہ میں ایک مسیحی بچے کے قتل کی تو وہ پاکستانی شہری تھا حکومت پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ قاتلوں کو پکڑے ان کو کیفر کردار تک پہنچائے اور مقتول کے ورثاء کو جلد از جلد انصاف فراہم کرے۔ ہم اس قتل کی مذمت کرتے ہیں۔ آخر میں فاضل مضمون نگار سے ایک سوال کرنا ضروری سمجھتے ہیں وہ یہ کہ جس غیر مسلم اقلیت سے تعلق رکھنے والی عورت کی وجہ سے گورنر پنجاب کا قتل ہوا اور قاتل کو سزائے موت ہوئی وہ عورت جو غیر مسلم ہے آج بھی جیل میں محفوظ ہے۔ سزائے موت کی قیدی ہے پر سزا پر عمل نہیں ہو رہا۔ بتائیں پاکستان میں غیر مسلم پھر بھی مظلومیت کا رونا کب تک روتے رہیں گے؟

تازہ ترین