• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نعرے سے اختلاف نہیں کیا جاسکتا۔ اصولی طور پر میاں نوازشریف کا ہی موقف درست ہے ۔ آئین کی بالادستی پر یقین رکھنے والے ہرپاکستانی کی خواہش اور کوشش یہ ہونی چاہئے کہ ووٹ کا تقدس بحال اور جمہور کی حکمرانی یقینی ہولیکن میاں نوازشریف کبھی وہ نہیں کرسکیں گے جس کا وہ ان دنوں دعویٰ کررہے ہیں ۔ بلاشبہ وہ لڑنے کے موڈ میں نظرآرہے ہیں ۔ ان کی جانشین اور صاحبزادی مریم نوازشریف ان سے بھی دو قدم آگے ہیں ۔ سردست دونوں قیدوبندسمیت ہر صعوبت کے لئے تیار نظر آتے ہیں ۔ میاں صاحب کو خوشامدی مشیروں نے باور کرایا ہے کہ پاکستان ترکی اوروہ اس کے طیب اردوان ہیں ۔ بیٹی تو سچ مچ اپنے والد کو پاکستان کا مسیحا سمجھتی ہیں اور یقیناََ ہر بیٹی کی باپ کے بارے میں یہی سوچ ہونی چاہئے ۔ لیکن ان سب کچھ کے باوجود مجھے یقین ہے کہ بالآخر میاں نوازشریف کو اس راستے پر آنا ہوگا جو چوہدری نثار علی خان اور میاں شہباز شریف تجویز کررہے ہیں ۔حالانکہ اصولی طور پر شاید ان دونوں کا راستہ مثالی اور درست نہیں ۔ وہ دونوں میاں صاحب کو بھی اچھی طرح جانتے ہیں اور اپنی مسلم لیگ کو بھی ۔ اس لئے وہ جانتے ہیں کہ میاں صاحب اس لڑائی کو برپا تو کرسکتے ہیں ، برقرار ہر گز نہیں رکھ سکتے ۔ قربانی کے لئے تو وہ بارہ اکتوبر 1999 کو بھی تیار تھے ۔ جب تین جرنیل ان کے پاس آئے اور استعفے کے کاغذ پر دستخط کرنے کو کہا تو ان کے انکار کا مطلب یہی تھا کہ وہ موت اور جیل غرض ہر قربانی کا رسک لے رہے ہیں ۔ رسک تو انہو ں لیا لیکن افسوس کہ پھر اس راستے کے لوازمات پوری نہ کرسکے ۔ جیل کی سختی برداشت کرسکے اور نہ مالی نقصانات کو۔ نتیجتاً پرویز مشرف سے ڈیل کرکے سعودی عرب چلے گئے ۔
میاں نوازشریف اور ان کی بیٹی مریم نواز رسک لینے والے بھی ہیں اور ضدی بھی ۔ زود رنج بھی ہیں اور کینہ پرور بھی ۔ اس لئے جھگڑا بھی مول لیتے ہیں اور رسک بھی ۔لیکن المیہ یہ ہے کہ وہ دونوں تعیش پسند بھی ہیں ۔ بعض اوقات خون بہانے پر آمادہ نظر آتے ہیں لیکن پسینہ بہانے پر نہیں ۔ یوں وہ موت کا رسک لے لیں گے لیکن جیل زیادہ دیر برداشت نہیں کرسکیں گے ۔ جو لیڈر دوران وزارت عظمیٰ اجلاس بلانے کی زحمت گوارا نہیں کرسکتا تھا اور پارٹی رہنمائوں سے میل ملاپ بھی ان کے لئے بوجھ بن جاتا تھا ، وہ جیل کی زندگی لمبے عرصے تک کیسے برداشت کرسکتے ہیں۔ اسی طرح جو لیڈر لاہور جاتے ہوئے ایک ہوٹل کے کھانے سے مستفید ہونے کے لئے مارچ کا شیڈول بدل دے ، وہ کیوں کر زیادہ وقت کے لئے جیل کا کھانا پینا برداشت کرسکیں گے ۔ کوئی مانے یا نہ مانے لیکن اس معاملے میں میاں نوازشریف بالکل عمران خان جیسے ہیں ۔ میری اس رائے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ میاں صاحب کو اپنے بچوں سے بے انتہاپیار ہے جبکہ بچوں کو ان سے بے پناہ عقیدت ہے ۔ اب کی بار چونکہ آزمائش صرف میاں نوازشریف کی نہیں بلکہ اولاد کی بھی ہوگی ۔ اس لئے میاں صاحب شاید اپنی سختی کی وجہ سے توپسپا نہ ہوں لیکن اولاد کی سختی یا تذلیل کو برداشت کرنا ان کے لئے اگر ناممکن نہیںتو مشکل ضرور ہوگا۔ اسی طرح مریم بی بی شاید ضد میں اپنی ذات کی حد تک ہر سختی برداشت کرلیں گی لیکن باپ کی مشکلات انہیں ہلادیں گی ۔ ایک اور دلیل اس کی یہ ہے کہ سیاسی لیڈر کی فوج ان کی جماعت ہوا کرتی ہے ۔ اگر کمانڈر بہادر بھی ہو لیکن اپنی فوج ان کے ساتھ کھڑی نہ ہو وہ کچھ بھی نہیں کرسکتا ۔ میاں صاحب نے اپنی فوج ( پارٹی) کی گزشتہ چار سالوں میں جس طرح توہین کی ہے ، اس کے بعد کوئی پاگل ورکر ہی ان کی خاطر قربانی دے سکتا ہے ۔کون نہیں جانتا کہ اقتدار میں آنے کے بعد انہوں نے پارٹی کو عملی طور پر معطل کردیا تھا ۔ ورکر تو کیا موجودہ قائمقام صدر یعقوب ناصر تک جیسے لوگ سالوں تک ان کی زیارت کے لئے تڑپتے رہے ۔ پارٹی ایم این ایز اور وزیر ان تک رسائی کے لئے ان کے من پسند بیوروکریٹس اور دو تین غیرسیاسی خوشامدی مشیروں کی قدم بوسیوں پر مجبور تھے ۔ یوں بھی میاں صاحب نے گزشتہ آزمائش میں ساتھ دینے والے سید غوث علی شاہ ، مخدوم جاوید ہاشمی اور چوہدری نثار علی خان کے ساتھ جو براسلوک کیا اور اس کے برعکس پرویز مشرف کے ساتھ رہنے والوں یا پھر خفیہ سازباز کرنے والے سیالکوٹیوں کو جس طرح نوازا ، اس مشاہدے کے بعد کسی مسلم لیگی لیڈر کا دماغ خراب ہے کہ جو ان کے لئے جیل جائے ۔ ایک اور دلیل یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت ساتھ دینے کو تیار نہیں ۔ آصف علی زرداری نے جب اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دی تو میاں صاحب نے ان کو تنہا چھوڑ دیا ۔ اب انہوں نے بڑی محنتوں اور منت ترلوں کے بعدبجانے کی بجائے اینٹ سے اینٹ لگا دی ہے ۔ وہ کسی صورت میاں صاحب کی خاطر کسی اور سے معاملات خراب کرنے کو تیار نہیں بلکہ الٹا وہ ان سے انتقام لینے کی کوشش کررہے ہیں ۔ مولانا فضل الرحمان صاحب اور محمودخان اچکزئی صاحب اس دن تک ساتھ ہیں جس دن تک اقتدار ہے ۔ دونوں نے ابھی سے اگلے انتخابات کے پیش نظر ،سن تہتر کے آئین کے تناظر میں نوازشریف مخالف قوتوں سے سازباز کی کوششیں شروع کردی ہیں ۔ یوں سویلین بالادستی کی وہ جنگ میاں صاحب کیسے لڑسکتے ہیں جس میں ملک کی باقی سویلین قیادت بھی ساتھ کھڑی نہ ہو۔ ایک اور اہم دلیل یہ ہے کہ میاں صاحب ان قوتوں سے لڑنا چاہتے ہیں کہ کیسز کی صورت میں جن کے پنجے میں میاں صاحب کی گردن اب بھی پھنسی ہوئی ہے ۔ یوں ایسی قوت سے لڑائی کیسے لڑی جاسکتی ہے کہ لڑنے والے کے مستقبل کا فیصلہ کرنا اس کے ہاتھ میں ہو۔ سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ اب کی بار میاں صاحب کی اخلاقی پوزیشن ، بارہ اکتوبر 1999کے مقابلے میں بہت کمزور ہے ۔ تب انہوں نے سیاسی طور پر درست یا غلط لیکن بہر حال اپنا آئینی اور قانونی اختیار استعمال کرکے آرمی چیف کو معزول کیا تھالیکن اب کی بار سیاسی طور پر درست یا غلط لیکن بہر حال انہیں پاکستان کی سب سے بڑی عدالت نے قانونی اور آئینی طور پر نااہل قرار دیا ہے ۔ ان کے خلاف عدالتی طریق کار اور فیصلوں سے تو اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن بہر حال وہ عوام کی عدالت میں بھی اپنے آپ کو معصوم ثابت نہیں کرسکے ۔ بارہ اکتوبر 1999 کے بعد جب ان کی اخلاقی پوزیشن بہت مضبوط تھی اور وہ یہ جنگ جاری نہ رکھ سکے تو اب کمزور اخلاقی پوزیشن کے ساتھ کیسے جاری رکھ سکیں گے ۔ تبھی تو مجھے یقین ہے کہ بادل ناخواستہ سہی لیکن بہر حال ایک نہ ایک دن میاں نوازشریف اور مریم نوازشریف کو چوہدری نثار علی خان اور میاں شہباز شریف کے راستے پر آنا ہوگا۔ ہاں البتہ اگر زیادہ دیر کردی تو پھر ہاتھ کچھ نہیں آئے گا اور اس صورت میں ان کے ساتھ ساتھ پھر شہباز شریف اور ان کی اولاد کو بھی ان آزمائشوں سے گزرنا ہوگا جو نوازشریف کے راستے میں کھڑی ہیں ۔ البتہ اگر شہباز شریف کامیاب ہوگئے تو لازماً اس کا فائدہ ان کے ساتھ ساتھ نوازشریف اور ان کی اولاد کو بھی پہنچے گا۔ سوچ اور اپروچ مختلف ہے لیکن حقیقتاً دونوں بھائی اور ان کی اولاد ایک کشتی کے سوار بھی ہیں ۔ اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ جس طرح دونوں بھائیوں کی اولادوں کا ایک دوسرے کے ساتھ چلنا مشکل ہے ، اسی طرح میاں شہبازشریف کے لئے یہ ناممکن ہے کہ وہ اپنے بھائی سے بغاوت کرلیں ۔ شہباز شریف یہ حقیقت بھی یقیناََ جانتے ہوں گے کہ ووٹ اور سپورٹ بہر حال نوازشریف کا ہے ۔ ووٹ اسی طرف جائے گا جس طرف نوازشریف جائیں گے ۔ لیکن چونکہ وہ اپنے خاندان اور پارٹی کی کمزوریوں کے بارے میں حقیقت پسند ہیں ، اس لئے آخری وقت تک بیچ بچائو کی کوشش کریں گے۔ تاہم کامیاب نہیں ہوئے تو پھر وہ اسی کشتی میں رہیں گے جس میں نوازشریف بیٹھیں گے ۔ اسی طرح چوہدری نثار بھی ان کے ساتھ کھڑے رہ جائیں گے۔ لیکن خوشامدی اور سیالکوٹ گروپ جو اس وقت قدم بڑھائو نوازشریف کے نعرے لگارہے ہیں ، ساتھ نہیں ہوں گے ۔ یقین نہ آئے تو بارہ اکتوبر 1999کے بعد کے اخبارات نکال کر دیکھ لیجئے ۔ جو تقریر نویس بارہ اکتوبر کی بغاوت کے بعد ایک سال تک ایوان صدر میں چھپ کر بریگیڈئر راشد قریشی کی ماتحتی میں کام کرسکتا ہے ، ان کے لئے اب وفاداری بدلنا کیوںکر مشکل ہوگا اور جو سیالکوٹی بارہ اکتوبر کے بعد لمبے عرصے تک غائب ہوسکتا ہے ، وہ اب کی بار کیوں غائب نہیں ہوگا۔ تبھی تو ہم کہتے ہیں کہ چوہدری نثار دشمن نہیں مخلص دوست ہیں اور تبھی تو ہم کہتے ہیں کہ بھائی شہباز جو کہتے ہیں درست کہتے ہیں ۔یہ ترکی نہیں پاکستان ہے۔ یہ طیب اردوان نہیں، میاں نوازشریف ہیں اور یہ پی کے پارٹی نہیں ، مسلم لیگ (ن) ہے۔

تازہ ترین