• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 عزیزم چوہدری فراز حسین نے سابق امریکی صدر باراک اوباما کی آخری اقتداری تقریر کا ایک کلپ بھیجا ہے جس میں سابق امریکی صدر اوباما فرما رہے ہیں کہ ’’میں دو بار صدر بنا، امریکہ کا صدر ہونا میرے لئے ایک بڑے اعزاز کی بات ہے، مجھے صدارت سے جتنی عزت ملی اس کی توقع نہیں کر سکتا تھا، میں اپنے کام سے بہت پیار کرتا ہوں لیکن ہمارے آئین کے مطابق میں دوبارہ اس عہدے پر کام نہیں کر سکتا، میں پھر سے صدر بن سکتا ہوں، میرا خیال ہے کہ میں اچھا صدر ہوں، دوبارہ الیکشن لڑوں تو جیت سکتا ہوں لیکن میں یہ نہیں کر سکتا، میں امریکی عوام کے لئے بہت کچھ کر سکتا ہوں لیکن قانون، قانون ہے اور کوئی بھی شخص قانون سے بالاتر نہیں حتیٰ کہ امریکی صدر بھی۔ میں آپ کو دیانتداری سے بتاتا ہوں کہ میں صدارت کے بعد آنے والی زندگی کے بارے میں سوچ رہا ہوں، اُس زندگی میں یہ بڑا پروٹوکول اور حفاظت کرنے والے نہیں ہوں گے، اس سے مراد میں گھوم پھر سکوں گا، اپنے خاندان کے لوگوں سے مل سکوں گا اور ملک کی خدمت کے اور طریقے بھی ڈھونڈ سکوں گا، افریقہ کے چکر بھی لگائوں گا مجھے سمجھ نہیں آتی کہ لوگ ہمیشہ اقتدار سے جڑا کیوں رہنا چاہتے ہیں، خاص طور پر جب ان کے پاس بہت دولت ہو، جب کوئی لیڈر اقتدار میں رہنے کے لئے قانون یا آئین میں تبدیلی کرتا ہے تو ملک میں عدم استحکام اور مسائل پیدا ہوتے ہیں جیسا کہ ہم نے برونڈی میں دیکھا۔ یہ ملک کو تباہی کے راستے پر ڈالنے کا پہلا قدم ہوتا ہے اور جب کوئی لیڈر یہ کہے کہ میں ہی اس ملک کو ترقی کے راستے پر لے کر جا سکتا ہوں تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ لیڈر اپنی قوم کو پائوں پر کھڑا کرنے میں ناکام رہا۔ دیکھیں نیلسن منڈیلا کو، جارج واشنگٹن کو، ان کو اس لئے یاد نہیں رکھا جاتا کہ انہوں نے بطور صدر کوئی بڑا کام کیا بلکہ اس لئے یاد کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اقتدار کو پرامن طریقے سے منتقل کیا۔ کسی کو بھی ساری عمر اقتدار سے جڑے رہنے کا حق نہیں ملنا چاہئے۔ کسی بھی ملک کے لئے یہ بہتر ہے کہ اس کے نوجوانوں کو نئے خیالات کے ساتھ حکومت کرنے کا موقع ملنا چاہئے۔ میں اب بھی جوان ہوں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ کوئی بھی نوجوان نئے جذبے اور خیالات کے ساتھ ملک کے لئے بہتر کام کر سکے گا۔ ‘‘
چونکہ چوہدری فراز حسین کا تعلق ایک سیاسی خانوادے سے ہے اس لئے انہوں نے صدر اوباما کی تقریر کا وہ کلپ بھیجا ہے جو پاکستان کی موجودہ سیاست کا اصل ’’چہرہ‘‘ بے نقاب کر رہا ہے۔ سابق امریکی صدر کی تقریر کا بغور جائزہ لیا جائے تو صاف پتہ چلتا ہے کہ ہم امریکیوں کے ساتھ اپنے حالات کا، اپنی طرز سیاست کا موازنہ نہیں کر سکتے۔ ہم یہ موازنہ کر بھی کیسے سکتے ہیں کیونکہ ہمارے ہاں اقتدار چھوڑنے کا رواج ہی نہیں۔ ہمارے ہاں تو جو بھی آتا ہے وہ اقتدار چھوڑنے کا نام ہی نہیں لیتا، وہ یہ سمجھتا ہے کہ اُس کے بغیر ملک چل ہی نہیں سکتا، ملک کی ترقی کے لئے اس کا اقتدار میں رہنا بہت ضروری ہے۔ ہمارے ہاں تو اقتدار کی طوالت کے لئے قانون بدل دیئے جاتے ہیں جو بھی اقتدار میں آتا ہے وہ یہ سوچتا ہے کہ اب اُس کو اقتدار سے صرف موت جدا کر سکتی ہے۔ آپ حالیہ دنوں کی کہانی دیکھ لیجئے۔ حالیہ دنوں میں وطن عزیز میں یہی ہوا۔ ایک شخص جو ملک کا وزیر اعظم تھا، ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ نے اُسے نااہل قرار دیا، اُسے گاڈ فادر کہا، اُسے سسلین مافیا کہا مگر اس نے اعلیٰ ترین عدلیہ کے فیصلے پر نہ صرف تنقید کی بلکہ یوں کہا کہ ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘
اوباما کہتے ہیں کہ انہیں ایسے لوگوں پر حیرت ہوتی ہے جن کے پاس دولت ہو اور وہ اقتدار کے ساتھ جڑا رہنا چاہتے ہوں۔ اوباما کو ایسے لیڈروں پر بھی حیرت ہوتی ہے جو اقتدار میں رہنے کے لئے قانون اور آئین میں تبدیلیاں کرتے ہیں، اسی سے عدم استحکام پیدا ہوتا ہے، اسی سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ اوباما کا یہ بھی خیال ہے کہ کسی کو ساری عمر اقتدار سے جڑے رہنے کا حق نہیں ملنا چاہئے۔ یہ سب باتیں درست ہیں مگر پیارے اوباما ہم آپ سے موازنہ نہیں کر سکتے، ہمارے ہاں تو ایک نااہل شخص کو پارٹی کا صدر بنانے کے لئے آئین میں ترمیم کر دی جاتی ہے، ہمارے ہاں قانون بدل دیئے جاتے ہیں، ہمارے ہاں تو لوگ قبر تک اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں، ہمارے ہاں تمہاری طرح کے حکمران نہیں ہیں، ہمارے حکمران تو دولت اور اقتدار کے پجاری ہیں وہ اپنے ملک میں لوٹ مار کرتے ہیں، اپنی دولت بیرونی دنیا میں منتقل کرتے ہیں۔ چوری، منی لانڈرنگ ان کا شیوہ ہے، ہمارے حکمران ہر حال میں اقتدار میں رہنا چاہتے ہیں اس مقصد کے لئے وہ ہر قسم کی دھونس دھاندلی جائز سمجھتے ہیں۔ اقتدار میں رہنا، دولت کمانا، یہی ان کا پسندیدہ کام ہے، پیارے اوباما ہمیں تو آپ جیسا اصول پسند حکمران کوئی بھی نہیں مل رہا، مجھے تو بس آپ کی اصول پسندی پر ڈاکٹر قمر تابش کا شعر یاد آ رہا ہے کہ ؎
کوئی صورت تیری صورت سے ملے بھی آخر
میں نے کھنگالا ہے اس شہر کا چہرہ، چہرہ

تازہ ترین